Beth Kar Namaz Parhne Wala Ruku Kis Tarah Karega ?

بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے رکوع کرنے کا درست طریقہ

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Fsd-8531

تاریخ اجراء: 08 ربیع الاول  1445ھ/25 ستمبر   2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ اگر کوئی شخص بیٹھ کر نماز ادا کر رہا ہو،تو رکوع کس طرح  کرے؟ کچھ لوگ بہت زیادہ  جھک جاتے ہیں ، کچھ بہت کم جھکتے ہیں، شرعی رہنمائی فرمائیے اس میں رکوع کرنے کا درست طریقہ کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اولاً یہ یاد رہے!فرائض،واجبات اور سنتِ فجر میں قیام فرض ہے۔ان نمازوں کو اگر بغیر کسی عذرِ شرعی کے  بیٹھ کر پڑھیں گے،تو ادا نہیں ہوں گی،البتہ  جو شخص کسی صحیح و شرعی عذر کی بنا پر بیٹھ کر یہ نمازیں ادا کرے یا بلا عذر کوئی نفل نماز بیٹھ کر پڑھے،تواس میں رُکوع کرنے کا دُرست طریقہ یہ ہے کہ اتنا جھکے کہ پیشانی گھٹنوں کے مقابل یعنی سیدھ میں آجائے،اس سے زیادہ جھکنا کہ پیشانی زمین کو لگنے کے قریب ہوجائےیا سرین اٹھا کربہت زیادہ آگے کی طرف بڑھ جانا اور جھکنا مکروہ تنزیہی  و ناپسندیدہ عمل ہے،اس لیے کہ رُکوع کا    کم از کم درجہ یہ ہےکہ سر جھکایا جائے اور اس کے ساتھ معمولی سی پیٹھ بھی جھکائی جائے اور حدِ اعتدال اور کامل طریقہ یہ ہے کہ پیشانی گھٹنوں کے مقابل میں آجائے،لہٰذا جو انداز حدِ اعتدال سے زیادہ ہو گا وہ عبث اور بے جا  ہو گا،اس لیے اس سے بچنا چاہیے۔یہ بھی یاد رہے کہ جب کوئی عذر نہ ہو،تو نفل نماز بھی کھڑے ہوکر پڑھنی چاہیے کہ کھڑے ہو کر نفل نماز پڑھنا مطلقاً افضل ہے،خواہ وہ عشاء میں وتروں کے بعد کے نوافل ہوں یا کوئی اور نفل نماز ہو ،نیز اِس لیے بھی نفل کھڑے ہو کرپڑھنے چاہیے کہ بیٹھ کر نفل پڑھنے میں  ثواب کھڑے ہوکر پڑھنے سے آدھا رہ جاتا ہے۔

   فرضیتِ قیام کے متعلق تنویر الابصار ودرمختار   اور عامۂ کتب فقہ میں ہے:(ومنھا القیام فی فرض) وملحق بہ کنذر و سنّۃ  فجر  فی الاصح ( لقا در علیہ) وعلی السجودترجمہ:جو شخص قیام اور سجدے پر قادر ہو اُس پر فرض  نماز میں اور اس نماز میں جو اس کے ساتھ لاحق  ہے،جیسے  منت کی نماز اور اصح قول کے مطابق  سنّتِ فجر میں قیام  فرض ہے۔(تنویر الابصار و در مختار ،کتاب الصلاۃ ،جلد2،صفحہ 163،مطبوعہ کوئٹہ )

   اور بلا عُذر بیٹھ کر پڑھی گئی نماز نہ ہونے کے متعلق علامہ محمد بن ابراہیم حلبی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات :956ھ/1049ء) لکھتےہیں:الثانیۃ من الفرائض  القیام  ولوصلی  الفریضۃ  قاعدا مع القدرۃ علی القیام لاتجوز صلوتہ  بخلاف النافلۃ ترجمہ:فرائضِ نماز میں سے دوسرا فرض  قیام ہے اور اگر کوئی شخص قیام پر قدرت کے باوجود بیٹھ کر نماز ادا کرے،تو اُس کی نماز جائز نہیں،برخلاف نفل نماز کے (کہ وہ بلاعذر بیٹھ کر بھی جائز ہے)۔(غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلی ، صفحہ 261 مطبوعہ سھیل اکادمی ، لاھور)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے  ہیں: فرض و وتر و عیدین و سنتِ فجر میں قیام فرض ہے کہ بلا عذرِصحیح بیٹھ کر یہ نمازیں پڑھے گا، نہ ہوں گی۔  ‘‘(بھارِ شریعت ، جلد1، حصہ 3، صفحہ510،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   اور بیٹھ کر رُکوع کرنے کا طریقہ بیان کرتے ہوئے علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:وفي حاشية الفتال عن البرجندي:ولو كان يصلي قاعدا ينبغي أن يحاذي جبهته قدام ركبتيه ليحصل الركوع ،قلت: ولعله محمول على تمام الركوع، وإلا فقد علمت حصوله بأصل طأطأة الرأس أي مع انحناء الظهرترجمہ:حاشیہ فتال میں برجندی کے حوالے سے ہے  کہ اگر کوئی شخص بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو،تو اسے چاہیے (رکوع کرتے ہوئے اتنا جھکے)کہ اپنی پیشانی کو دونوں گھٹنوں کی سیدھ میں لے آئے،تاکہ رکوع کی ادائیگی حاصل ہو جائے۔(علامہ شامی عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ  فرماتے ہیں ) میں کہتا ہوں : شاید یہ کلام تمام  و کمال ِ رکوع پر محمول  ہو گا، وگرنہ تُو یہ جان جاچکا ہے کہ رکوع تو صرف سرجھکادینے سے یعنی ساتھ کچھ پیٹھ جھکانے سے ادا ہو جاتا ہے۔(ردالمحتار مع  الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، جلد2، صفحہ167، مطبوعہ  کوئٹہ)

   اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/1921ء) سے سوال ہوا کہ نفل نماز بیٹھ کر ادا کریں،تو رکوع کس طرح ادا کریں یعنی سرین اُٹھیں یا نہیں ؟ تو آپ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ  نےجواباً ارشاد فرمایا:رُکوع میں قدرِ واجب تو اِسی قدر ہے کہ سرجھکا ئے اور پیٹھ کو قدرے خم دے،مگر بیٹھ کر نما ز پڑھے،تو اس کا درجۂ کمال و طریقۂ اعتدال یہ ہے کہ پیشانی جھک کر گھٹنوں کے مقابل آجائے،اس قدر کے لیے سرین اٹھانے کی حاجت نہیں،تو قدرِ اعتدال سے جس قدر زائد ہوگا،وُہ عبث و بیجا میں داخل ہو جائے گا۔۔۔اور نماز میں جو ایسا فعل کیا جائے گا، لااقل ناپسند و مکروہ تنزیہی ہوگا۔(فتاویٰ رضویہ، جلد6،صفحہ157،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   اسی طرح فتاوی امجدیہ میں ہے ۔(فتاویٰ امجدیہ، جلد1،صفحہ79،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)

   اور نفل نماز بیٹھ کر پڑھنے کے متعلق تفصیلی حکم بیان کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے  ہیں:کھڑے  ہو کر پڑھنے کی قدرت ہو جب بھی بیٹھ کر نفل پڑھ سکتے ہیں،مگر کھڑے ہو کر پڑھنا افضل ہے کہ حدیث میں فرمایا : بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز کھڑے ہو کر پڑھنے والے کی نصف ہے ۔‘‘(مسلم، کتاب صلا ة  المسافرين و قصرها، باب جواز النافلة قائما و قاعدا... الخ) اور عذر کی وجہ سے بیٹھ کر پڑھے،تو ثواب میں کمی نہ ہو گی۔ یہ جو آج کل عام رواج پڑ گیا ہے کہ نفل بیٹھ کر پڑھا کرتے ہیں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید  بیٹھ کر پڑھنے کو افضل سمجھتے ہیں، ایسا ہے تو ان کا خیال غلط ہے ۔  وتر کے بعد جو دو  رَکعت نفل پڑھتے ہیں ان کا بھی یہی حکم ہے کہ کھڑے ہو کر پڑھنا افضل ہے اور اِس میں اُس حدیث سے دلیل لانا کہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے وتر کے بعد بیٹھ کر نفل پڑھے ۔ ( مسلم، کتاب صلا ة  المسافرين و قصرها، باب صلاة  الليل...الخ) صحیح نہیں کہ یہ حضور (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم)کے مخصوصات میں سے ہے۔(بھارِ شریعت ، جلد1،حصہ 4، صفحہ670،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم