Behoshi Ki Halat Mein Kitni Namazain Reh Jayen To Qaza Nahi

 

بے ہوشی کی حالت میں کتنی نمازیں رہ جائیں، تو قضا لازم نہیں رہتی؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:HAB-0412

تاریخ اجراء: 20 صفر المظفر    1446ھ/26اگست     2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ  بے ہوشی کی حالت میں جو چھ  نمازو ں کا ذکر ہے کہ اگر کسی کی بے ہوشی اتنی طویل ہوجائے کہ اسی حالت میں چھ نمازیں فوت ہوجائیں، تو اب   اس سے ان نمازوں کی قضا ساقط ہوجائے گی ،ان چھ نمازوں سے مراد فرض نمازیں ہیں یا وتر کو ملاکر چھ نمازیں ہوجائیں تب بھی قضا ساقط ہوجائے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھے گئے مسئلے میں  چھ نمازوں سے مراد چھ فرض نمازیں ہیں ، اس میں وتر شامل نہیں،یعنی اگر کسی کی بے ہوشی کی حالت میں وتر کو ملاکر  کل چھ نمازیں  فوت ہوجائیں اور چھٹی فرض نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے ہوش آجائے ،تو اس پر ان نمازوں کی قضا لازم ہے اور چھٹی فرض نماز کا وقت بھی ختم ہوجائے، تو اب قضا ساقط ہوجائے گی ۔

   اس کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ  فقہائےکرام علیہم الرحمۃ نے  فرمایا ہے کہ اگربے ہوشی ایک دن رات سے زیادہ طاری رہی،تو اس دوران فوت ہونے والی نمازوں کی قضا لازم نہیں،چنانچہ امام شمس الائمہ سرخسی علیہ الرحمۃ مبسوط میں لکھتے ہیں:”فإن كان مغمى عليه ينظر إذا كان مغمى عليه يوما وليلة أو أقل يجب عليه إعادة الصلاة، وإن كان أكثر من يوم وليلة، لا يجب عليه إعادة الصلاة عند علمائنا۔۔ولناما روی عن علی رضی اللہ تعالى عنه  أنه أغمی عليه فی أربع صلوات فقضاهن، وعن عمار بن ياسر أنه أغمی عليه يوما وليلة فقضاهما وعبد اللہ بن عمر أغمی عليه ثلاثة أيام ولياليها فلم يقضها“ترجمہ:تو اگر کسی پر بے ہوشی طاری ہو تو یہ دیکھا جائے گا کہ اگر اس پر ایک دن رات یا اس سے کم بے ہوشی طاری رہی ،تو اس پر نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہے اور اگر ایک دن رات سے زیادہ عرصہ بے ہوشی طاری رہی تو ہمارے علماء کے نزدیک اس پر نماز کا اعادہ واجب نہیں ۔۔اور ہماری دلیل  وہ حدیث ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ پر چار نمازوں تک بے ہوشی طاری رہی،تو آپ رضی اللہ عنہ نے ان نمازوں کی قضا فرمائی اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان پر ایک دن رات تک بے ہوشی طاری رہی، تو انہوں نے ان نمازوں کی قضا فرمائی اور حضرت عبد اللہ بن عمر سےمروی ہے کہ ان پر تین دن تین راتیں بے ہوشی طاری رہی،  تو انہوں نے ان نمازوں کی قضا نہیں فرمائی ۔ (المبسوط للسرخسی،ج01،ص 217،دار المعرفہ،بیروت)

   جبکہ صاحب ہدایہ نے اس مسئلے کی تعبیر نمازوں کے عدد سے فرمائی ہے،ایک دن رات کے الفاظ سے نہیں ،چنانچہ آپ علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :”ومن أغمی عليه خمس صلوات أو دونها قضى وإن كان أكثر من ذلك لم يقض“ترجمہ:اور جس پر پانچ نمازوں کے اوقات  یا اس سے کم   میں بے ہوشی طاری رہی، تو وہ  ان نمازوں کی قضا کرے اور اگر اس سے زیادہ بے ہوشی طاری رہی ،تو قضا لازم نہیں ۔(الھدایہ،ج01،ص 78، دار احياء التراث العربی، بيروت، لبنان)

   تعبیر کوئی سی بھی ہو ! دونوں صورتوں میں اس مسئلہ کی جو علت بیان کی گئی ہے اس سے وتر کا ان چھ نمازوں میں شامل نہ ہونا بالکل واضح ہے،چنانچہ  علامہ بابرتی علیہ الرحمۃ عنایہ شرح ہدایہ میں اس مسئلے کی علت بیان کرتے ہوئے  لکھتے ہیں:”والفقه فيه أن المدة إذا طالت كثرت الفوائت فيتحرج فی الأداء، وإذا قصرت قلت فلا حرج، والكثير أن تزيد على يوم وليلة لأنه يدخل فی حد التكرار“ترجمہ:اور اس میں فقہ یہ ہے کہ بے ہوشی کی مدت جب طویل ہوگی ،تو فوت شدہ نمازیں کثیر ہوجائیں گی، تو ان کی ادائیگی میں حرج واقع ہوگا اور اس کی مدت کم ہوگی ،تو فوت شدہ نمازیں بھی  کم ہوں گی ،تو ادائیگی میں حرج نہیں ہوگا اور کثیر یہ ہے کہ وہ مدت ایک دن رات سے زیادہ ہوجائے، کیونکہ اس طرح نمازیں تکرار کی حد میں داخل ہوجائیں گی ۔(العنایۃ شرح الھدایہ ،ج02،ص 09،دار الفکر ،بیروت،لبنان)

   اس عبارت سے معلوم ہوا کہ تخفیف کے لیے تکرار کا پایا جانا ضروری ہے اور تکرار فقط ایک دن رات کی نمازوں سے نہیں ہوسکتی ،جیساکہ  علامہ شلبی علیہ الرحمۃ حاشیہ تبیین الحقائق میں لکھتے ہیں:” (قوله؛ لأن الكثرة بالدخول فی حد التكرار) أی؛ لأنه ما لم يزد على الخمس، وهو صلاة يوم وليلة كان فيه شيمة الاتحاد من حيث الجنسية فشرط الدخول فی حد التكرار لتثبت الكثرة“ترجمہ:شارح علیہ الرحمۃ کا قول :کیونکہ کثرت حد تکرار میں داخل ہونے سے حاصل ہوتی ہے یعنی کیونکہ جب نمازیں پانچ سے زائد نہ ہوں اور وہ ایک دن رات کی نمازیں ہیں تو ان میں جنسیت کی وجہ سے متحد ہونے کی جھلک ہوتی ہے تو حد تکرار میں داخل ہونے کو شرط قرار دیا تاکہ کثرت ثابت ہوسکے ۔(تبیین الحقائق مع حاشیۃ الشلبی ،ج01،ص 188، المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

   اور وتر بھی ایک دن رات کی نمازوں میں سے ہے، اسی لیے اس کا کثرت کے معاملے میں شمار نہیں ہوگا ،جیساکہ یہی علامہ شلبی علیہ الرحمۃ حاشیہ تبیین الحقائق میں لکھتے ہیں:”وذكر في الدراية أيضا أن الوتر غير محسوب من الفوائت في باب الكثرة بالإجماع أما عندهما فظاهر وأما عنده فلأنه، وإن كان فرضا لا تحصل به الكثرة؛ لأنه من تمام وظيفة اليوم والليلة، والكثرة لا تحصل إلا بالزيادة عليها من حيث الأوقات أو من حيث الساعات ولا مدخل للوتر في ذلك بوجه فيكون المراد بالفوائت الصلوات المؤقتة “ترجمہ:اور درایہ میں اس بات کو بھی ذکر کیا گیا ہے  کہ اس بات پر اجماع ہے کہ  کثرت کے معاملے میں وتر کو قضا نمازوں میں شمار نہیں کیا جائے گا ،صاحبین کے نزدیک شمار نہ کیا جانا ظاہر ہے (کہ ان کے نزدیک یہ سنت ہے) رہا امام اعظم علیہ الرحمۃ کا قول تو اگرچہ ان کے نزدیک وتر فرض(عملی) ہے لیکن پھر بھی اس سے کثرت حاصل نہیں ہوتی ،کیونکہ یہ ایک دن رات کی   مقرر شدہ  نمازوں کی اختتامی نماز ہے اور کثرت اس وقت حاصل ہوتی ہے جبکہ ایک دن رات پر نماز یا تو اوقات کے اعتبار سے زائد ہوجائے یا ساعتوں کے اعتبار سے اور وتر کا اس معاملے میں کسی صورت دخل نہیں ہے تو فوت شدہ نمازوں سے مراد فرض نمازیں ہوں گی ۔(تبیین الحقائق مع حاشیۃ الشلبی ،ج01،ص 187، المطبعة الكبرى الأميريہ ،القاهرہ)

   علامہ شرنبلالی علیہ الرحمۃ نے مراقی الفلاح اور علامہ سید شامی علیہ الرحمۃ نے رد المحتار میں یہی کلام فرمایا ہے ۔(مراقی الفلاح ،ج01،ص 172، المكتبة العصريہ)(رد المحتار،ج02،ص 68،دار الفکر )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم