Behoshi ki Halat me Qaza hone wali Namaz ka Hukum

بے ہوشی میں قضا نمازوں کا حکم

مجیب:محمدعرفان مدنی

مصدق:مفتی ابو الحسن  محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: Grw-304

تاریخ اجراء:     07شعبان المعظم1443 ھ/ 11مارچ2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علما ئے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ آپریشن سے پہلے مریض کو انجیکشن ،دوائی وغیرہ سے بےہوش کیاجاتاہے ،یہ بے ہوشی اگراتنی طویل ہوکہ  چھ یااس سے زائدنمازیں قضاہوجائیں، توکیایہ نمازیں معاف ہوں گی  یاان کی قضاکرناہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   انجیکشن اوردوائی وغیرہ مصنوعی طریقہ سے جوبےہوشی طاری کی جائے ،اس سے اگربندہ بے ہوش ہوتووہ بے ہوشی چاہے کتنی ہی طویل ہو،اس دوران چھ نمازیں فوت ہوجائیں یاان سے زیادہ ،بہرصورت فوت ہونے والی تمام نمازوں کی قضااس پرلازم ہوگی ۔تفصیل اس میں یہ ہے کہ

   اگربےہوشی کسی آفت سماویہ کے سبب ہویعنی من جھۃ اللہ ہو،تووہ اگراتنی طویل ہوکہ چھ نمازیں یاان سے زیادہ فوت ہوجائیں توان کی قضانہیں ہوتی ،اوراگرچھ سے کم نمازیں فوت ہوں،توان کی قضالازم ہوتی ہے اوریہ مسئلہ استحسانا،خلاف قیاس نصوص وآثارسے ثابت ہے اورنصوص میں بے ہوشی کی وہی صورت ہے ،جوآفت سماوی کی وجہ سے طاری ہوئی ،نہ کہ وہ جوبندے کے اپنے فعل کی وجہ سے طاری ہوئی ،لہذابندے کے فعل سے جوبے ہوشی طاری ہوگی، وہ خواہ کتنی طویل ہو،اس دوران فوت ہونے والی ساری نمازوں کی قضااس پرلازم ہوگی ۔

   الآثارلابی یوسف میں ہے:’’ قال: وثنا يوسف عن أبي يوسف عن أبي حنيفة عن حماد عن إبراهيم في رجل أغمي عليه يوما وليلة، فقال: ابن عمر رضي اللہ عنهما كان يقول: يقضي ذلك، وإن أغمي عليه أكثر من ذلك لم يقض‘‘ترجمہ:حضرت ابراہیم نخعی علیہ الرحمۃ سے اس شخص کے متعلق سوال کیاگیا،جس پرایک دن اورایک رات بے ہوشی طاری ہوئی، توآپ علیہ الرحمۃ نے فرمایا:حضرت ابن عمررضی اللہ تعالی عنہمافرماتے تھے :یہ شخص ان کی  قضاکرےگا،اوراگراس پراس سے زیادہ بے ہوشی طاری ہوتوقضانہیں کرے گا۔(الآثارلابی یوسف ،حدیث نمبر282،صفحہ57،دارالکتب العلمیہ،بیروت)

   محیط رضوی میں ہے:”ولو شرب البنج أو الدواء حتى أغمي عليه ، قال محمد : يسقط عنه القضاء متی کثر ؛ لأنه إنما حصل بما هو حصل بما هو مباح فصار كما لو أغمي عليه بمرض . وقال أبو حنيفة رحمه اللہ : يلزمه القضاء ، لأن النص ورد في إغماء حصل بآفة سماوية فلا يكون وارداً فی اغماء حصل بصنع العباد ،لان العذر متی جاء من جھۃ غیر من لہ الحق لا یسقط الحق،ولو اغمی علیہ بفزع من سبع او آدمی اکثر من یوم ولیلۃ لایلزمہ القضاء بالاجماع،لانہ حصل بآفۃ سماویۃ لان الخوف والفزع انما یجئ لضعف قلبہ فیکون بمعنی المرض“ترجمہ:کسی پر بھنگ یادوائی پینے سے بے ہوشی طاری ہوئی ،تو امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب بے ہوشی طویل ہو،تو اس سے قضا ساقط ہوجائے گی ،کیونکہ بے ہوشی کا طاری ہونا ایسے امر کی وجہ سے ہوا جو مباح ہے، تو یہ ایسے ہی ہے جیسے مرض کی وجہ سے بے ہوشی طاری ہوجائے،اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس پر قضا لازم ہوگی کیونکہ نص اس بے ہوشی کے متعلق وارد ہے جو آفت  سماویہ کی وجہ سے ہو ،پس اس  کے متعلق  نص کاثبوت نہیں ہوگا جو بندوں کے فعل  سے طاری ہو،کیونکہ عذر جب بھی  صاحب حق کے غیر کی طرف سے آئے تو حق ساقط نہیں ہوتا،اور اگر آدمی پر بے ہوشی کسی درندے یا آدمی کے خوف کی وجہ سے طاری ہو اور ایک دن رات سے زیادہ طاری رہے تو اس پر سے بالاجماع قضا ساقط  ہوجائے گی ،کیونکہ یہ والی بے ہوشی آفت سماویہ کی وجہ سے طاری ہوئی ہے ،کیونکہ خوف اور گھبراہٹ ضعف قلب کی وجہ سے ہی  پیدا ہوتے ہیں، تو یہ مرض کے معنی میں  ہوں گے ۔(محیط رضوی، جلد 1،صفحہ 372،373،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   فتح باب العنایہ میں ہے:”ولو زال عقله بخمر يلزمه القضاء وإن طال، ولو زال ببنج أو دواء فكذا عند أبي حنيفة، لأن سقوط القضاء عرف بالأثر في آفة سماوية، ولا يقاس عليه ما حصل بفعله “ترجمہ:اگر کسی شخص کی عقل شراب پینے کی وجہ سے زائل ہوگئی، تو اس پر قضا لازم ہوگی ،اگرچہ زوالِ عقل کا زمانہ کتنا ہی دراز ہو،اور اگر کسی کی عقل بھنگ پینے یا دوائی کی وجہ سے زائل ہوئی ،تو بھی امام اعظم علیہ الرحمۃ کے نزدیک یہی حکم ہے ،کیونکہ  قضا کا ساقط ہونا آفت سماویہ میں اثر کی وجہ سے معلوم ہوا،تو اس پراس زوالِ عقل کو قیاس نہیں کیا جائے گا ،جو اپنے فعل سے ہوئی۔(فتح باب العنایۃ،جلد1،صفحہ 388،مطبوعہ کراچی)

   درمختارمیں ہے:’’ (زال عقله ببنج أو خمر) أو دواء (لزمه القضاء وإن طالت) لأنه بصنع العباد كالنوم “ترجمہ:اور اگر بھنگ، شراب یا دوائی پینے کی وجہ سے کسی کی عقل زائل ہوئی، تو اس پر قضا لازم ہوگی، اگرچہ زوال ِ عقل  کی مدت کتنی ہی دراز ہو،کیونکہ  یہ زوالِ عقل بندوں کے فعل کی وجہ سے ہے ،تو یہ نیندکی طرح ہے ۔

   اس کے تحت ردالمحتارمیں ہے:’’ أي وسقوط القضاء عرف بالأثر إذا حصل بآفة سماوية فلا يقاس عليه ما حصل بفعله. ۔۔۔ولا يرد على التعليل سقوط القضاء بالفزع من سبع أو آدمي كما مر لقولهم إن سببه ضعف قلبه وهو مرض أي فهو سماوي‘‘ترجمہ: یعنی  آفت  سماویہ  کی وجہ سے بے ہوشی طاری ہو،تواس صورت میں قضا کا ساقط ہونا اثر کی وجہ سے ہے،تو اس کو اس بے ہوشی پر قیاس نہیں کیا جائے گا جو اپنے فعل سے ہو، اوراس تعلیل پر آدمی یا درندے کے خوف سے حاصل ہونے والی بے ہوشی کے زمانے میں قضا ساقط ہونے والے مسئلہ کے ذریعے اعتراض نہیں ہوسکتا ،کیونکہ فقہاء نے فرمایا: اس کا سبب ضعف قلب ہے اوروہ مرض ہے ،تو وہ سماوی ہے۔(رد المحتار مع الدر المختار،جلد 2،صفحہ 102، دار الفکر،بیروت)

   اسی طرح حاشیۃ الطحطاوی،نہرالفائق،تبیین الحقائق وغیرہ میں ہے ۔

   بہارشریعت میں ہے:’’جنون یا بے ہوشی اگر پورے چھ وقت کو گھیرلے، تو ان نمازوں کی قضا بھی نہیں، اگرچہ بے ہوشی آدمی یا درندے کے خوف سے ہو اور اس سے کم ہو تو قضا واجب ہے۔ ۔۔۔ شراب یا بنگ پی، اگرچہ دوا کی غرض سے اور عقل جاتی رہی، تو قضا واجب ہے، اگرچہ بے عقلی کتنے ہی زیادہ زمانہ تک ہو۔ يوہيں اگر دوسرے نے مجبور کر کے شراب پلا دی جب بھی قضا مطلقاً واجب ہے۔ ‘‘(بھارشریعت،جلد01،حصہ04،صفحہ723،724،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم