Azan o Iqamat mein "حی علی الصلوہ" aur "حی علی الفلاح" Mein Daen Baen Dekhne ki Illat o Hukum

اذان و اقامت میں  "حی علی الصلوۃ"  اور "حی علی الفلاح" میں دائیں بائیں   دیکھنے کی علت و حکم

مجیب:مولانا محمد آصف عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3057

تاریخ اجراء:11ربیع الاول1446ھ/14ستمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اذان واقامت میں حی علی الصلوۃ  اور حی علی الفلاح میں دائیں بائیں کیوں دیکھتے ہیں؟اور یہ فرض ہے، واجب ہے یا سنت؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اذان میں اس لیے چہرہ دائیں بائیں پھیرا جاتا ہے کیونکہ یہ مؤذن رسول  صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے یونہی  ثابت ہے ،کہ جب وہ رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  کی موجودگی میں اذان دیتے تھے توحی علی الصلاۃاور حی علی الفلاح پر دائیں بائیں چہرہ پھیرتے تھے، نیز اس میں دائیں بائیں منہ کرکے اس سمت کے لوگوں کونماز کی طرف بلانے کے لیے بھی ایسا کیا جاتا ہے اور اقامت کا حکم بھی اس مسئلہ میں اذان کی مثل  ہے اور اذان واقامت دونوں میں یہ دائیں بائیں چہرہ پھیرنا ، مستحب ہے۔

   مبسوط سرخسی میں ہے:"قال (وينبغي للمؤذن أن يستقبل القبلة في أذانه حتى إذا انتهى إلى الصلاة والفلاح حول وجهه يمينا وشمالا وقدماه مكانهما) ولأن الأذان مناجاة ومناداة ففي حالة المناجاة يستقبل القبلة وعند المناداة يستقبل من ينادي لأنه يخاطبه بذلك كما في الصلاة يستقبل القبلة فإذا انتهى إلى السلام حول وجهه يمينا وشمالالأنه يخاطب الناس بذلك فإذا فرغ من الصلاة والفلاح حول وجهه إلى القبلة لأنه عاد إلى المناجاة" ترجمہ:اور(موذن کے لیے مناسب ہے کہ وہ اذان میں قبلہ رخ ہو یہاں تک کہ جب وہ 'الصلاة' اور 'الفلاح' پر پہنچے تو اپنا چہرہ دائیں اور بائیں موڑ لے جبکہ اس کے پاؤں اپنی جگہ پر رہیں)۔ کیونکہ اذان ایک طرح کی مناجات (اللہ سے بات چیت) اور نداء (لوگوں کو بلانا) ہے۔ لہٰذا مناجات کے وقت قبلہ کی طرف رخ کیا جاتا ہے، اور نداء کے وقت اس کی طرف رخ کیا جاتا ہے جسے بلایا جا رہا ہو، کیونکہ وہ اس سے خطاب کر رہا ہے۔ جیسے نماز میں قبلہ کی طرف رخ کیا جاتا ہے اور جب سلام پر پہنچا جاتا ہے تو چہرہ دائیں اور بائیں پھیرا جاتا ہے کیونکہ وہ لوگوں کو مخاطب کر رہا ہوتا ہے۔ جب نماز اور فلاح (کے کلمات) سے فارغ ہو جائے تو دوبارہ قبلہ کی طرف چہرہ موڑ لے کیونکہ اب وہ پھر سے مناجات کر رہا ہوتا ہے۔ (المبسوط للسرخسی ،ج 1،ص 129،دارالمعرفۃ ،بیروت)

   تبیین الحقائق میں ہے:"(ويلتفت يمينا وشمالا بالصلاة والفلاح) لما روي أن بلالا لما بلغ حي على الصلاة حي على الفلاح حول وجهه يمينا وشمالا ولم يستدر"ترجمہ: اور وہ (موذن) حی علی الصلاۃ اور فلاح (کے الفاظ) پر دائیں اور بائیں طرف رخ کرےگا کیونکہ روایت میں ہے کہ جب  حضرت بلال رضی اللہ عنہ "حی علی الصلاۃ"اور"حی علی الفلاح" پر پہنچے تو انہوں نے اپنا چہرہ دائیں اور بائیں طرف موڑا، اور اپنا پورا جسم نہیں گھمایا۔ (تبیین الحقائق،ج 1،ص 91، المطبعة الكبرى الأميرية ، القاهرة)

   علامہ ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"وأطلق في الالتفات ولم يقيده بالأذان، وقدمنا عن الغنية أنه يحول في الإقامة أيضًا" ترجمہ: اور مصنف نے  چہرہ موڑنے کو مطلق رکھا اور اسے اذان کے ساتھ مقید نہیں کیا، اور ہم غنیہ (کتاب) کے حوالے سے  پہلے بیان کرچکے  کہ اقامت میں بھی چہرہ پھیرے گا ۔"(البحر الرائق،ج 1،ص 272، دار الكتاب الإسلامي)

   فتاوی خلیلیہ میں ہے:"اقامت مثل اذان ہے، لہذا اقامت میں بھی "حی علی الصلوٰۃ" اور "حی علی الفلاح" کے موقع پر دائیں بائیں منہ پھیرے ، یہ صرف ایک امر مستحب ہے، اس کی خاطر باہم لڑنا جھگڑنااورانتشارپھیلانا سخت ممنوع ہے۔" ( فتاوی خلیلیہ ، ج  1 ،ص  209 ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم