Azan Ke Waqt Salam Karna Aur Salam Ka Jawab Dena

اذان کے وقت  سلام کرنا اور سلام کا جواب دینا

مجیب:مولانا محمد آصف عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3178

تاریخ اجراء:08ربیع الثانی1446ھ/12اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اذان کے وقت  سلام کرنا اور سلام کا جواب دینا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

اذان کے وقت سلام کرنا،یا سلام کاجواب دینا ممنوع ہے۔ لہذا اذان کے دوران  کسی کو سلام نہ  کیا جائے اور اگر کوئی سلام کرے تو اس کا جواب نہ دیا جائے،بلکہ توجہ کے ساتھ اذان سنی جائے  اور اذان کا جواب دیا جائے۔

   بحر الرائق میں ہے:”في فتاوى قاضي خان إجابة المؤذن فضيلة وإن تركها لا يأثم، وأما قوله عليه الصلاة والسلام { من لم يجب الأذان فلا صلاة له } فمعناه الإجابة بالقدم لا باللسان فقط۔۔۔۔ ولا يقرأ السامع ولا يسلم ولا يرد السلام ولا يشتغل بشيء سوى الإجابة“یعنی فتاوٰی قاضی خان میں ہے کہ اذان کے جواب دینے میں فضیلت ہے اور اگر کوئی شخص اذان کا جواب زبان سے نہ دے تو وہ گنہگار نہیں ہوگا۔ بہر حال سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ"جو اذان کا جواب نہ دے تو اس کی کوئی نماز نہیں"اس سے مراد اذان کا جواب قدم سے دینا ہے نہ کہ فقط زبان سے اذان کا جواب دینا۔۔۔سامع اذان کے دوران تلاوت نہ کرے، نہ ہی کسی کو سلام کرے اور نہ ہی سلام کا جواب دے، نہ ہی اذان کے جواب کے علاوہ کسی اور کام میں مشغول ہو۔(بحر الرائق،کتاب الصلاۃ،ج 1،ص 273، دار الكتاب الإسلامي)

   بہارِ شریعت میں ہے”جب اَذان ہو، تو اتنی دیر کے ليے سلام،کلام اور جواب سلام، تمام اشغال موقوف کر دے یہاں تک کہ قرآن مجید کی تلاوت میں اَذان کی آواز آئے، تو تلاوت موقوف کر دے اور اَذان کو غور سے سُنے اور جواب دے۔ یوہیں اِقامت میں۔ جو اَذان کے وقت باتوں میں مشغول رہے، اس پر معاذ اﷲ خاتمہ برا ہونے کا خوف ہے۔(بہار شریعت، ج 01، حصہ 3،ص 473، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم