Azan Ke Doran Namaz Ka Waqt Shuru Ho Tu Kya Azan Dobara Di Jaye Gi ?

دورانِ اذان اگر وقت شروع ہو، تو کیا وہ اذان دوبارہ دی جائے گی؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13062

تاریخ اجراء:        09ربیع الثانی1445 ھ/25اکتوبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ مؤذن فجر کا وقت شروع ہونے سے ایک منٹ پہلے ہی اذانِ فجر دینا شروع کرے، پھر دورانِ اذان ہی فجر کا وقت شروع ہوجائے،  تو کیا وہ اذان درست قرار پائے گی؟ کیونکہ اذان ختم ہونے سے پہلے  تو وقت شروع ہوچکا تھا، یا دوبارہ سے اذان دی جائے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں  اذانِ فجر درست نہیں ہوئی، لہذا دوبارہ وقت کے اندر  اُس اذان کا اعادہ کیا جائے گا۔

   مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ اذان نماز کا وقت داخل ہونےکے بعد دی جائے گی، لہذا نماز کا وقت شروع ہونے سے پہلے اُس وقت کی اذان نہیں دی جاسکتی، اگر دی گئی تو وہ اذان شمار ہی نہیں ہوگی، یہی حکم  اس صورت کا بھی  ہے کہ جب دورانِ  اذان وقت شروع ہوا ہو۔

   وقت داخل ہونے سے پہلے دی گئی اذان کا اعادہ ہوگا۔ جیسا کہ بدائع الصنائع وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”وأما بيان وقت الأذان والإقامة فوقتهما ما هو وقت الصلوات المكتوبات ، حتى لو أذن قبل دخول الوقت لا يجزئه ويعيده إذا دخل الوقت في الصلوات كلها“یعنی اذان اور اقامت کا وقت وہی ہے جو فرض نماز کا وقت ہے، یہاں تک کہ اگر مؤذن نے وقت داخل ہونے سے پہلے ہی اذان دے دی تو یہ اذان کافی نہ ہوگی، لہذا جب نماز  کا وقت داخل ہوجائے تو اس وقت میں اذان کا اعادہ کیا جائے گا (تمام نمازوں میں یہی حکم ہے)۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 154، دار الكتب العلمية، بيروت)

   بحر الرائق میں ہے:”(ولا يؤذن قبل وقت ويعاد فيه) أي في الوقت إذا أذن قبله؛ لأنه يراد الإعلام بالوقت فلا يجوز قبله“یعنی وقت سے پہلے اذان نہیں دی جائے اور اگر وقت سے پہلے اذان دے دی تو اس  نماز کے وقت میں اذان کا اعادہ کیا جائے گا، کیونکہ اذان  وقت شروع ہونے  کی خبر دینے کے لیے ہے لہذا وقت سے پہلے اذان دینا جائز نہیں۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 277، دار الكتاب الإسلامي)

   مبسوط سرخسی   میں ہے:”(إن أذن قبل دخول الوقت لم يجزه ويعيده في الوقت) لأن المقصود من الأذان إعلام الناس بدخول الوقت فقبل الوقت يكون تجهيلاً لا إعلاماً“یعنی اگر مؤذن نے وقت داخل ہونے سے پہلے ہی اذان دے دی تو یہ جائز نہیں اور اس اذان کا وقت میں اعادہ کیا جائے گا، کیونکہ اذان سے مقصود لوگوں کو وقت شروع ہونے کی خبر دینا ہے جبکہ وقت شروع ہونے سے پہلے ہی اذان دینا تجہیل ہے،  خبر دینا نہیں ۔ (المبسوط للسرخسی، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 134، دار المعرفۃ)

   اذان کے دوران وقت شروع ہو جب بھی اس اذان کا اعادہ ہوگا۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے : ” (فیعاد اذان وقع)بعضہ(قبلہ) کالاقامۃ۔“یعنی اگر بعض اذان وقت سے پہلے کہی گئی تو اس کا اعادہ کیا جائے گا جیسے اقامت کا حکم ہے ۔

    (وقع بعضہ) کے تحت ردالمحتارمیں ہے:” و کذا کلہ بالاولیٰ، و لو لم یذکر البعض لتوھم خروجہ فقصد بذکرہ التعمیم لا التخصیص۔ قولہ: (کالاقامۃ) ای: فی انھا تعاد اذا وقعت قبل الوقت۔“ ترجمہ: ”اسی طرح اگر پوری اذان ہی وقت سے پہلے دے دی جائے تو بدرجہ اولیٰ اس کا اعادہ ہوگا، اگر شارح بعض کو ذکر نہ کرتے تو اس کے خارج ہونے کا وہم جاتا پس انہوں نے  تعمیم کے ارادے سے اس لفظ کو ذکر کیا نہ کہ تخصیص کے طور پر  ۔ قولہ: (کالاقامۃ)  یعنی جیسے اقامت جب وقت سے پہلے کہی جائے تو اس کا اعادہ کیا جاتا ہے، یہی حکم اذان کا بھی ہوگا۔ “(ردالمحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ  ، ج02، ص63، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے : ”وقت ہونے کے بعد اَذان کہی جائے، قبل از وقت کہی گئی يا وقت ہونے سے پہلے شروع ہوئی اور اَثنائے اَذان میں وقت آگیا، تو اعادہ کی جائے۔“(بہارِ شریعت، ج01، ص465،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاوٰی امجدیہ میں ہے:”قبل از وقت اذان، اذان ہی نہیں، اگرچہ اذان فجر ہو، بلکہ اگر قبل وقت شروع کی، اور وقت میں ختم کی تو اس کے بھی اعادہ کا حکم ہے۔  (فتاوٰی امجدیہ، ج01، ص53، مکتبہ رضویہ، کراچی)

   وقار الفتاوٰی  میں ہے:”وقت سے پہلے جو اذان دی جائے گی، وقت ہونے کے بعد دوبارہ دینا لازم ہے ۔ “(وقار الفتاوٰی، ج 02، ص 24، بزم وقار الدین)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم