Ayyam e Tashreeq Mein Qaza Namaz Ke Baad Bhi Takbeer Tashreeq Parhna Wajib Hai?

 

ایام تشریق میں قضا نماز کے بعد بھی تکبیرِ تشریق پڑھنا واجب ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13446

تاریخ اجراء:15محرم الحرام1446 ھ/22جولائی  2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایامِ تشریق میں گزشتہ قضائے عمری ادا کرنے والےشخص  پر کیا اُن قضا نمازوں کے بعد تکبیرِ تشریق پڑھنا واجب ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ایامِ تشریق میں گزشتہ قضا ئے عمری ادا کرنے والے نمازی پر اُن قضا نمازوں کے بعد تکبیرِ تشریق پڑھنا واجب نہیں۔

   مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ نویں ذی الحجہ کی فجر سے لے کر  تیرہویں ذی الحجہ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد کہ جو جماعتِ مستحبہ کے ساتھ ادا کی جائے، ایک بار بلند آواز سے تکبیر کہنا واجب ہے، اِسے تکبیرِ تشریق کہتے ہیں۔ البتہ قضا نمازوں  کی جماعت کے بعد تکبیرِ تشریق واجب ہونے یا نہ ہونے کی چار صورتیں ہیں : (1) پہلی صورت تو یہ ہے کہ ان ایامِ تشریق میں گزشتہ قضا نمازوں کو  ادا کیا جائے۔ (2) دوسری صورت یہ ہے کہ ایامِ تشریق میں قضا ہونے والی نمازوں کو دیگر ایام میں ادا کیا جائے ۔ (3) تیسری صورت یہ ہے کہ ان  ایامِ تشریق میں گزشتہ  سال کے ایامِ تشریق کی قضا نمازوں کو ادا کیا جائے ۔ (4) چوتھی صورت یہ ہے کہ ان  ایامِ تشریق میں اِسی سال کے ایّام تشریق کی قضا نمازوں کو  ادا کیا جائے ۔

   مذکورہ بالا چاروں صورتوں میں سے فقط آخری یعنی چوتھی صورت میں تکبیرِ تشریق واجب ہے، پہلے کی تین صورتوں میں تکبیرِ تشریق واجب نہیں۔ واضح ہوا کہ صورتِ مسئولہ میں گزشتہ قضا نمازوں کو  ایامِ تشریق میں ادا کرنے والے نمازی پر تکبیرِ تشریق واجب نہیں۔ 

   تکبیرِ تشریق کب اور کس پر واجب ہے؟ اس سے متعلق تنویر الابصار مع الدر المختار  میں ہے:(عقب كل فرض) ۔۔۔(أدى بجماعة)  أو قضي فيها منها من عامه لقيام وقته كالأضحية (مستحبة) خرج جماعة النساء والعراة۔“یعنی ایامِ تشریق میں ہر اُس فرض نماز کے بعد تکبیرِ تشریق پڑھنا واجب ہے کہ جسے جماعتِ مستحبہ کے ساتھ ادا کیا جائے، اس " مستحبة " کی قید سے عورتوں اور برہنہ لوگوں کی جماعت خارج ہوگئی، یونہی اُسی سال کے اُنہی ایامِ تشریق کی قضا نماز جب جماعت کے ساتھ ادا کی جائے، تو اس قضا نماز کے بعد بھی تکبیرِ تشریق پڑھنا واجب ہے کہ ابھی اُس تکبیر کا وقت باقی ہے، اس کا حکم قربانی کی مثل ہے۔

   مذکورہ بالا عبارت کے تحت فتاوٰی شامی میں ہے:(قوله: أو قضي فيها إلخ)الفعل مبني للمجهول معطوف على أدى، والمسألة رباعية فائتة غير العيد قضاها في أيام العيد فائتة أيام العيد قضاها في غير أيام العيد فائتة أيام العيد قضاها في أيام العيد من عام آخر فائتة أيام العيد قضاها في أيام العيد من عامه ذلك ولا يكبر إلا في الأخير فقط كذا في البحر۔ “ ترجمہ: ” شارح کا " أو قضي فيها إلخ"  کہنا یہاں " قضي " مبنی للمفعول ہے اس کا عطف " أدى "پر ہے۔ یہ مسئلہ چار صورتوں  کو محیط ہے۔ پہلی صورت تو یہ ہے ایامِ تشریق کے علاوہ قضا ہونے والی نماز کو ان ایام میں ادا کیا جائے، دوسری صورت یہ ہے کہ ایامِ تشریق میں قضا ہونے والی نمازوں کو ان ایام کے علاوہ میں ادا کیا جائے، تیسری صورت یہ ہے کہ اس سال کے ایامِ تشریق میں پچھلے سال کے ایامِ تشریق کی قضا نمازوں کو ادا کیا جائے، چوتھی صورت یہ ہے کہ اسی سال کے ایّام تشریق کی قضا نمازیں اسی سال کے انہيں دنوں میں ادا کیا جائے،  صرف آخری صورت ہی میں تکبیرِ تشریق واجب ہوگی جیسا کہ بحر میں ہے ۔ “ (رد المحتار  مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج 03، ص 74-73، مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطاً)

   مراقی الفلاح شرح نور الایضاح   میں ہے: ويأتي به (مرة) بشرط أن يكون (فور كل) صلاة (فرض) شمل الجمعة وخرج النفل والوتر وصلاة الجنازة والعيد إذا كان الفرض (أدي) أي صلي ولو كان قضاء من فروض هذه المدة فيها وهي الثمانية (بجماعة) خرج به المنفرد لما روي عن ابن مسعود رضي الله تعالى عنه ليس التكبير أيام التشريق على الواحد والاثنين التكبير على من صلى بجماعة (مستحبة) خرج به جماعة النساء ۔“یعنی تکبیر تشریق کو ہر فرض نماز کے فوراً بعد ایک مرتبہ پڑھنا ضروری ہے، فرض نماز میں جمعہ بھی شامل ہے۔ البتہ نفل، وتر، نمازِ جنازہ اور نماز عید اگرچہ فرض ہیں مگر اس حکم سے خارج ہیں۔ وہ فرض نماز جماعت سے ادا کی جائے اگرچہ کہ وہ انہی ایام کی قضا نماز ہو جو کہ اسی مدت میں ادا کی جارہی ہو، یہ  فرض نمازیں آٹھ ہیں۔ " بجماعة " کی قید سے منفرد خارج ہوگیا کہ حضرتِ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایامِ تشریق میں ایک اور دو افراد پر تکبیر واجب نہیں تکبیر تو جماعت سے نماز ادا کرنے والوں پر واجب ہے۔ " مستحبة " کی قید سے عورتوں کی جماعت خارج ہوگئی۔

   (ولو كان قضاء من فروض هذه المدة فيها الخ)کے تحت حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی  الفلاح میں ہے:خرج به ثلاث صور الأولى فائتة غيرها فيها الثانية فائتتها في غير هذه الأيام الثالثة فائتتها قضاها في أيامها من العام القابل وفي هذ الأخيرة خلاف أبي يوسف والصحيح أنه لا تكبير لها ۔ “ یعنی یہاں سے تین صورتیں خارج ہوگئیں پہلی صورت یہ ہے کہ ان ایام کے علاوہ کی قضا نمازیں ہوں، دوسری صورت یہ ہے کہ ان ایام کی قضا نمازوں کو دوسرے ایام میں ادا کیا جائے، تیسری صورت یہ ہے کہ ان ایامِ تشریق  میں گزشتہ سال کے ایامِ تشریق کی قضا نمازوں کو ادا کیا جائے، اس تیسری صورت میں امام ابو یوسف علیہ الرحمہ کا اختلاف ہے اور درست یہ ہے کہ اس کے بعد تکبیر واجب نہیں۔ (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ، کتاب الصلاۃ، ص 539، دار الكتب العلمية، بيروت)

   ایامِ تشریق کی قضا نمازیں اگر انہی ایام میں جماعت سے ادا کی جائیں تو اس کے بعد تکبیر واجب ہوگی، بقیہ تین صورتوں میں واجب نہیں۔ اس کی علت بیان کرتے ہوئے علامہ زیلعی علیہ الرحمہ تبیین الحقائق  میں نقل فرماتے ہیں:” ومن شروطه أن تكون الصلاة صلاة أيام التشريق وأداؤها في أيام التشريق بأن أداها في وقتها أو فاتته صلاة في أيام التشريق فقضاها في أيام التشريق في تلك السنة ؛ لأن التكبير لم يفت عن وقته من كل وجه فصار كرمي الجمار۔ وأما إذا فاتته صلاة قبل هذه الأيام فقضاها فيها لا يكبر؛ لأن القضاء على وفق الأداء، وكذا لو فاتته صلاة في أيام التشريق فقضاها في غير أيام التشريق أو قضاها في أيام التشريق من قابل لا يكبر عقيبها؛ لأن هذه سنة أو واجبة فاتت عن وقتها فلا تقضى كرمي الجمار وصلاة العيد والجمعة۔ “ یعنی تکبیرِ تشریق واجب ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وہ نماز ایامِ تشریق کی ہو اور اسے ایامِ تشریق ہی میں ادا کیا جائے خواہ وقت میں ادا کیا جائے یا پھر اسی سال کے  ایامِ تشریق کی قضا نمازوں کو انہی ایام میں قضا پڑھا جائے، کیونکہ تکبیر اپنے وقت سے من کل وجہ فوت نہیں ہوئی، جیسا کہ رمی جمار میں حکم ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص ان ایامِ تشریق سے پہلے قضا ہونے والی نمازوں کو ان دنوں میں ادا کرے،  تو ان قضا نمازوں کے بعد وہ تکبیرِ تشریق نہیں پڑھے گا، کیونکہ قضا نمازوں کو ادا نمازوں کے طریقے پر ہی پڑھا جاتا  ہے۔ یونہی ان ایامِ تشریق میں قضا ہونے والی نماز ان ایام کے گزرنے کے بعد ادا کی یا  پچھلے سال ایامِ تشریق کی قضا نمازیں اس سال کے ایامِ تشریق میں ادا کیں، تو ان قضا نمازوں کے بعد تکبیرِ تشریق پڑھنا واجب نہیں، کیونکہ یہ تکبیر یا تو سنت ہے یا واجب ہے جب یہ اپنے وقت سے رہ گئیں تو اس کی قضا نہیں جیسا کہ رمی جمار، نمازِ عید اور نمازِ جمعہ رہ جائیں تو ان کی قضا نہیں ہوتی۔(تبیین الحقائق شرح كنز الدقائق ، کتاب الصلاۃ،ج01،ص227، مطبوعہ ملتان)

   بہارِ شریعت میں ہے:”نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں کی عصر تک ہر نماز فرض پنجگانہ کے بعد جو جماعت مستحبہ کے ساتھ ادا کی گئی ایک بار تکبیر بلند آواز سے کہنا واجب ہے اور تین بار افضل اسے تکبیر تشریق کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اور دِنوں میں نماز قضا ہوگئی تھی ایّام تشریق میں اس کی قضا پڑھی تو تکبیر واجب نہیں۔ يوہيں ان دنوں کی نمازیں اور دنوں میں پڑھیں جب بھی واجب نہیں۔ يوہيں سال گذشتہ کے ایّام تشریق کی قضا نمازیں اس سال کے ایّام تشریق میں پڑھے جب بھی واجب نہیں، ہاں اگر اسی سال کے ایّام تشریق کی قضا نمازیں اسی سال کے انھيں دنوں میں جماعت سے پڑھے تو واجب ہے۔ “(بہارِشریعت،ج01،حصہ04،ص786-784، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم