Aurat Ka Namaz Mein Bache Ko Doodh Pilana Aur Khud Doodh Utar Aane Se Namaz Ka Hukum

عورت کا نماز میں بچے کو دودھ پلانے سے یونہی خود بخود دودھ اترنے سے نماز کا کیا حکم ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12669

تاریخ اجراء:17جمادی الاخری1444ھ/10جنوری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مجھے دو سوالات کے باحوالہ جواب درکار ہیں:

    (1)عورت اگر دورانِ نماز بچے کو دودھ پلادے تو اس کے وضو اور نماز کا کیا حکم ہوگا؟

    (2)نیز اگر دورانِ نماز عورت کی چھاتی سے خود بخود دودھ نکل آئے تو اس صورت میں وضو اور نماز کا کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1) دورانِ نماز عورت کا بچے کو دودھ پلانا عملِ کثیر ہے لہذا دودھ پلانے سے عورت کی نماز فاسد ہوجائے گی، البتہ وضو نہیں ٹوٹے گا کیونکہ دودھ پلانا وضو توڑنے والی چیزوں میں نہیں آتا۔

   بحرالرائق، فتاوٰی شامی وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”والنظم للاول“المرأة اذا ارضعت ولدها تفسد صلاتها لانها صارت مرضعة“یعنی عورت نے دورانِ نماز بچے کو دودھ پلایا تو نماز فاسد ہوجائے گی کیونکہ وہ دودھ پلانے والی ہوگئی۔(بحرالرائق شرح کنز الدقائق، کتاب الصلاۃ، ج02،ص21،مطبوعہ کوئٹہ)

نماز میں بچے کو دودھ پلانے سے نماز فاسد ہونے کی توجیہ بیان کرتے ہوئے سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:”فمسّ الرجل وتقبيله إيّاها بشهوةٍ في معنى الجماع ومصّ الصبيّ ثديها مع خروج اللبن تمكين على الإرضاع في معنى الإرضاع، ولا شكّ أنّ الجماع والإرضاع عملان كثيران يصدق عليهما التعريف الأوّل، فأجري حكمهما على ما في معناهما، نظير ذلك ما سيأتي: أنّ من رمى إنساناً بحجرٍ كان في يده، فسدت صلاته مع عدم الفساد إذا كان محلّ الإنسان طائر مثلاً، فالعمل في نفسه قليل لكنّه صار كثيراً في مسألة الإنسان لكونه في معنى التأديب أو الملاعبة أو الخصام، وكلّ ذلك عمل كثير، فكذا ما في معناها، هذا ما ظهر لي، والله تعالى أعلم۔“یعنی مرد عورت کو شہوت سے چھوئے یا شہوت سے اس کا بوسہ لے تو یہ فعل جماع کے معنی  میں ہے یونہی بچہ نماز میں عورت کی چھاتی کو چوسے کہ اس سے دودھ نکل آئے یہ دودھ پلانے کے معنی میں ہے۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں  کہ جماع اور بچے کو دودھ پلانا یہ دونوں افعال عملِ کثیر ہیں۔  ان پر عملِ کثیر کی پہلی تعریف صادق آتی ہے لہذا ان دونوں کا حکم اس پر بھی جاری کیا جائے گا کہ جو ان کے معنی میں ہے۔ اس کی نظیر وہ مسئلہ ہے جو عنقریب آئے گا کہ اگر نمازی کسی انسان کو وہ پتھر مارے جو اس کے ہاتھ میں موجود ہے تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی باوجودیکہ جب نمازی کسی پرندے کو پتھر مارے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی پس یہاں پر فی نفسہ عمل تو قلیل ہے مگر وہ انسان والے مسئلے میں کثیر ہوگیا ہے کیونکہ اس میں تادیب، ملاعبت اور جھگڑے کا معنی پایا جارہا ہے اور یہ تمام افعال عملِ کثیر ہیں پس وہی حکم ان  اعمال کا ہوگا جو ان کے معنی میں ہیں۔ یہ وہ بات ہے جو مجھ پر ظاہر ہوئی اور اللہ عزوجل ہی بہتر جانتا ہے۔(جد الممتار، کتاب الصلاۃ، ج 03، ص 351-350، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   بہارِ شریعت میں ہے:” عورت نماز پڑھ رہی تھی، بچہ نے اس کی چھاتی چوسی اگر دودھ نکل آیا، نماز جاتی رہی۔“ (بہار شریعت، ج 01، ص  324، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    (2) دورانِ نماز عورت کی چھاتی سےخود بخود دودھ نکلنے کی صورت میں نماز فاسد نہیں ہوگی اور نہ ہی اس سے وضو ٹوٹے گا، کیونکہ  انسانی بدن سے نکلنے والی پاک چیزاگرچہ بہنے والی ہو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ۔

   چنانچہ خزانۃ المفتین میں ہے :”الخارج من البدن علی ضربین طاھر ونجس فبخروج الطاھر لاینقض الطہارۃ کالدمع والعرق والبزاق والمخاط ولبن بنی اٰدم یعنی بدن سے نکلنے والی چیز دو قسم کی ہے: پاک اور ناپاک ، پاک کے نکلنے سے طہارت نہیں جاتی ۔جیسے آنسو ، پسینہ ، تھوک ، رینٹھ ،انسان کا دودھ ۔(خزانۃ المفتین،کتاب الطہارۃ،فصل فی انواقض الوضوء، ج 01، ص 04، مخطوطہ)

   فتاوی رضویہ میں ہے: ” بالجملہ اُن کے کلمات قاطبہ ناطق ہیں کہ حکمِ نقض، احتمال وظنِ خون وریم کے ساتھ دائر ہے،نہ کہ زکام سے ناک بہی اور وضو گیا،بحران میں پسینہ آیا اور وضو گیا،پستان کی قوتِ ماسکہ ضعیف ہونے سے دودھ بہا اور وضو گیا ہرگز نہ اس کا کوئی قائل نہ قواعدِ مذہب اس پر مائل۔(فتاوٰی رضویہ،ج01(الف)،ص364،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم