عورت کا جُوڑا باندھنا کیسا اور نماز کا حکم ؟ |
مجیب:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر:lar:6671 |
تاریخ اجراء:15شوال المکرم1438ھ/10جولائی2017ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیاعورت کے لیے سرپرجُوڑاباندھناجائزہے اوراس حال میں نمازاداکرناکیساہے؟ بعض لوگ اس طرح کی ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ” قُربِ قیامت عورتوں کے سراونٹنیوں کے کوہانوں کی طرح ایک طرف جھکے ہوں گے“ اوراس سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ عور ت کااپنے سرپرجُوڑاباندھناحرام ہے ۔اگریہ روایت درست ہے ، تو کیا اس میں اونٹنیوں کے کوہانوں کی طرح سرہوں گے ، اس سے مرادعورتوں کے جُوڑے ہیں؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
عورت کاسرپرجُوڑاباندھنا شرعاًجائزہے اوراس کے لیے اس حالت میں نمازاداکرنابغیرکسی کراہت کے جائزہے ، البتہ مردوں کوحالتِ نمازمیں جُوڑا باندھناممنوع ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایاہے ۔ چنانچہ مصنف عبدالرزاق میں ہے:”عن أبی رافع قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يصلی الرجل ورأسه معقوص“ترجمہ: حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کواس حال میں نمازپڑھنے سے منع فرمایاکہ اس نے سر کے بالوں کاجُوڑابنایا ہو۔(مصنف عبد الرزاق الصنعانی،جلد2،صفحہ183،المجلس العلمی) حضرت علامہ زين الدين محمد المدعو بعبد الرؤوف المناوی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفى: 1031ه) فیض القدیرمیں اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:”قال الزين العراقی : والنهی خاص بالرجل دون المرأة “ترجمہ:امام زین عراقی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:(نمازمیں جُوڑا باندھنے کی)ممانعت مردوں کے ساتھ خاص ہے نہ کہ عورتوں سے۔(فيض القدير شرح الجامع الصغير،باب المناھی،جلد6،صفحہ348، مطبوعہ مصر) اعلی حضرت امام اہلسنت مجددِ دین و ملت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :”جُوڑا باندھنے کی کراہت مرد کے لیے ضرور ہے‘‘۔ حدیث میں صاف نهی الرجلہے ۔ عورت کے بال عورت ہیں ، پریشان ہوں گے ، تو انکشاف کا خوف ہے اور چوٹی کھولنے کا اسے غسل میں بھی حکم نہ ہوا کہ نماز میں کف شعر گندھی چوٹی میں ہے ، جب اس میں حرج نہیں ، جُوڑے میں کیا حرج ہے ۔ مرد کے لیے ممانعت میں حکمت یہ ہے کہ سجدے میں وہ بھی زمین پر گریں اور اس کے ساتھ سجدہ کریں کما فی المرقاۃ وغیرہاور عورت ہر گز اس کی مامور نہیں لاجرم امام زین الدین عراقی نے فرمایا:ھو مختص بالرجال دون النساء۔(فتاوی رضویہ جلد7،صفحہ298رضا فاؤنڈیشن،لاهور) رہی بات سوال میں مذکورحدیث پاک کی۔یہ روایت درست ہے اوراس مفہوم کی روایت کئی کُتبِ احادیث جیسےصحیح مسلم ، مسند احمد ، مسند ابی یعلی ،صحیح ابن حبان ،المعجم الاوسط،السنن الکبری للبیہقی ،شعب الایمان وغیرہ کتب میں موجودہے۔ اوراس حدیث کے یہ الفاظ کہ”ان عورتوں کے سربختی اونٹنیوں کے کوہانوں سے مشابہ ہو ں گے “اس جملے کی شرح میں شارحینِ حدیث کے کئی اقوال ہیں۔ بعض شارحین نےجو اس کی شرح جُوڑے سےکی ہے ، مرادوہ جُوڑاہے ، جوسرپربالوں کے اوپرکوئی کپڑالپیٹ کر اتنا بلند کر لیا جائے کہ وہ مردوں کے عمامے سے مشابہ ہوجائےیابے جا اسراف کرکے بالوں پرکپڑالپیٹاجائے یاتھوڑےبالوں کاکپڑے کےساتھ یوں جوڑابنانا کہ لوگوں کودھوکا ہوکہ یہ مکمل جُوڑابالوں کاہےیابطورِتکبرجُوڑاباندھنا اوریہ سب کام مردوں سے مشابہت،اسراف،لوگوں کودھوکا دینااور تکبر کرنا ، حرام ہیں۔ حضرت علامہ شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ اس حدیث کے الفاظ (رؤوسهن كأسنمة البخت المائلۃ)کی شرح میں تحریرفرماتے ہیں:”ارادبہ انھن یغطین رؤوسھن بالخمروالعمامۃ والعصابۃ حتی تشبہ اسنمۃ البخت۔۔۔ویجوزان یقال : اراد بقولہ (رؤوسھن کأسنمۃ البخت)انھن یکثر ن عقاص شعورھن حتی بالاسنمۃ“ترجمہ:وہ عورتیں اپنے دوپٹوں ،عماموں اورپٹیوں کے ساتھ اپنے سروں کوڈھانپ لیں گی حتی کہ وہ اونٹنیوں کے کوہانوں سے مشابہ ہوجائیں گےاوریہ بھی کہاجاسکتاہے کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے اس فرمان کہ ان عورتوں کے سربختی اونٹنیوں کی طرح ہوں گے ، سے مرادیہ ہے کہ وہ عورتیں اپنے بالوں کے جُوڑے کثرت سے بنائیں گی ، یہاں تک کہ وہ کوہانوں سے مشابہ ہوجائیں گے۔(لمعات التنقیح فی شرح مشکوۃ المصابیح،جلد6،صفحہ334،مبطوعہ کندھار) فيض القدير شرح الجامع الصغيرمیں زين الدين محمد المدعو بعبد الرؤوف المناوی القاہری رحمۃ اللہ علیہ(المتوفى: 1031ه)تحریرفرماتے ہیں:”وفی رواية كأسنمة البخت أی اللائي يجعلن على رؤوسهن ما يكبرها وبعظمها من الخرق والعصائب والخمر حتى تصير تشبه العمائم قال ابن العربي: وهذا كناية عن تكبير رأسها بالخرق حتى يظن الرائي أنه كله شعر وهو حرام ۔۔۔ وهن ارتكبن عدة محرمات: التشبه بالرجال والاسراف والاعجاب وغيرها“یعنی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ ان کے سربختی اونٹنیوں کی کوہانوں کی طرح ہوں گے یعنی وہ اپنے سروں پرکوئی ایسی چیزرکھیں گی ، جواسےاونچاکردےاور کپڑوں ،پٹیوں اوردوپٹوں کے ساتھ سروں کی بلندی اتنی ہوگی ، حتی کہ وہ مردوں کے عماموں کے مشابہ ہوجائیں گے ۔امام ابن عربی علیہ الرحمۃ نے فرمایا:(اونٹنیوں کے کوہانوں کی طرح سرہوں گے )یہ کنایہ ہے اس بات سے کہ وہ اپنے سروں کوکپڑے سے اونچاکریں گی کہ دیکھنے والاگمان کرے گاکہ یہ تمام بال ہیں اوریہ (لوگوں کودھوکے میں ڈالنا) حرام ہے۔۔۔یہاں انہوں نےمتعددحرام افعال کاارتکاب کیا :مردوں سے مشابہت،اسراف اورغروروتکبروغیرہ ۔(فيض القدير شرح الجامع الصغير،جلد1،صفحہ306،المكتبة التجارية الكبرى ، مصر( |
وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟