Asar Ki Namaz Ko Qasdan Lamba Karke Makrooh Waqt Mein Le Jane Se Kya Namaz Makrooh e Tahrimi Hojati Hai?

عصر کی نماز کو قصداً لمبا کرکے مکروہ وقت میں لے جانے سے کیا نماز مکروہِ تحریمی ہوجاتی ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12852

تاریخ اجراء:11ذیقعدۃ الحرام1444ھ/01جون2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے نماز عصر مکروہ وقت سے پہلے ہی شروع کی، لیکن قصداً اس نماز کو اتنا طول دیا کہ  دورانِ نماز ہی مکروہ وقت شروع ہوگیا، تو کیا اس کی وہ نماز مکروہِ تحریمی ہوگی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں اس شخص کی نماز بغیر کسی کراہت کے درست ادا ہوگئی ۔

   چنانچہ فتاوٰی عالمگیری  میں ہے:”لو شرع فيه قبل التغير فمده إليه لا يكره كذا في البحر الرائق ناقلا عن غاية البيان“یعنی اگر کسی نے مکروہ وقت سے پہلے نمازِ عصر شروع کی پھر  اُسے طول دیا یہاں تک کہ مکروہ وقت آگیا تو اس میں کراہت نہیں، ایسا ہی  بحر الرائق میں غایۃ البیان سےنقل کرتے ہوئے لکھا ہے ۔(فتاوٰی  عالمگیری، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 52، دار الفکر)

   بحر الرائق  میں مذکور ہے:”لو شرع فيه قبل التغير فمده إليه لا يكره لأن الاحتراز عن الكراهة مع الإقبال على الصلاة متعذر فجعل عفوا ، كذا في غاية البيان“یعنی اگر کسی نے مکروہ وقت سے پہلے نمازِ عصر شروع کی پھر نماز کو لمبا کیا یہاں تک کہ مکروہ وقت آگیا تو اس میں کراہت نہیں کیونکہ نماز میں ہوتے ہوئے اس شخص کا کراہت سے بچنا ممکن نہیں لہذا اسے معاف رکھا گیا ہے جیسا کہ غایۃ البیان میں مذکور ہے۔(البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 430، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارِ شریعت میں ہے:” عصر کی نماز وقت مستحب میں شروع کی تھی، مگر اتنا طول دیا کہ وقت مکروہ آگیا تو اس میں کراہت نہیں ۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص 452، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم