Akele Farz Parhne Ke Baad Jamaat Qaim Hona

فرض نماز تنہا پڑھنےکے بعد جماعت قائم ہونا

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2490

تاریخ اجراء: 06شعبان المعظم1445 ھ/17فروری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ایک شخص نے جماعت سے پہلے ہی فرض نماز  پڑھ لی پھر بعد میں جماعت شروع ہوئی تو اس کے لیے کیا حکم ہے کہ اس کی نماز ہوگئی یا دوبارہ جماعت سے نماز پڑھ سکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اپنی تنہا فرض نماز پڑھ لی  تو نماز ہوجائے گی  مگر بلاعذرشرعی جماعت چھوڑنے کی وجہ سے گنہگارہوگا۔جوشخص مسجد میں اپنی فرض نماز تنہاپڑھ چکا اورمسجد میں ہی تھا کہ  جماعت قائم ہوگئی تواگر نمازظہر یا عشاء ہے تو اب واجب ہے کہ نفل کی نیت سے اس جماعت میں شامل ہوجائے،اس صورت میں جماعت چھوڑکر مسجد سے باہر جانا مکروہ تحریمی  ، ناجائز وگناہ   ہوگا۔اگر فجر، عصر اور مغرب  کی نماز میں ایساہواتواب  حکم یہ ہے کہ مسجد سے باہر چلا جائے،جماعت میں شامل نہیں ہوسکتا۔

   اگر مسجد میں ہے  اور جماعت کے لیے اقامت شروع ہوجاتی ہے تو عشاء اور   ظہرمیں اس کا جماعت میں شامل نہ ہونا مکروہ ہے، جبکہ فجر ، عصر اور مغرب میں مسجد میں رکنا مکروہ ہے۔ کنز الدقائق اور اس کے تحت نہر الفائق میں ہے: ”(وإن صلى) وحده (لا) أي: لا يكره له الخروج لأنه أجاب داعي الله تعالى ۔۔(إلافي الظهر والعشاء إن شرع) المؤذن (في الإقامة) فيكره له بالخروج وإن صلى وحده لأنه مخالف للجماعة عيانا والتنفل بعدهما غير مكروه ولذا قيد بالظهر والعشاء لأنه يكره في غيرهما لكراهة التنفل بعد الفجر والعصر ولزوم أحد المحذورين السابقين لو اقتدى في المغرب “ ترجمہ:اور اگر اس نے تنہا نماز پڑھ لی تو اس کے لیے مسجد سے نکلنا مکروہ نہیں کیونکہ اس نے داعی الی اللہ کو جواب دے دیا الا یہ کہ ظہر یا عشاء کی جماعت ہو اور مؤذن اقامت کہنا شروع کر چکا ہو تو اب اس کےلیے مسجد سے خروج مکروہ ہے اگر چہ وہ تنہا  نماز پڑھ چکا  کہ وہ جماعت کا کھلا مخالف ہے  کہ ان دونوں کے بعد نفل پڑھنا مکروہ نہیں  اس لیے ظہر اور عشاء کی قید لگائی کہ  ان کے علاوہ میں فجر و عصر کے بعد نفل مکروہ ہے اور مغرب میں اگر وہ اقتدا کرے تو سابقہ  دونوں محذور میں سے ایک لوٹ آئے گا  ۔(النهر الفائق شرح كنز الدقائق ،ج1،ص310،دار الکتب العلمیۃ)

   درر شرح غرر کے حاشیہ میں علامہ شرنبلالی رحمہ اللہ لکھتےہیں:” (قوله لا يخرج أحد. . . إلخ) فإن خرج كره للنهي وهو يدل على كراهة التحريم“ ترجمہ:(ان کا قول کوئی مسجد سے  نہ نکلے ۔۔الخ ) تو اگر کوئی نکل جائے تو   نہی کی وجہ سے مکروہ ہے اور یہ اس پر دلیل ہے کہ یہ کراہت تحریمی ہے۔( درر الحكام شرح غرر الأحكام ،ج1،ص121، دار إحياء الكتب العربية)

   امام اہلسنت علیہ الرحمۃ  فرماتےہیں:” جوشخص مسجد میں نمازتنہا پوری پڑھ چکا ہو اب جماعت قائم ہوئی ہے اگرظہر یاعشا ہے توشرعًا اس پرواجب ہے کہ جماعت میں شریك ہوکہ مخالفت جماعت کی تہمت سے بچے اور باقی تین نمازوں میں حکم ہے کہ مسجد سے باہر نکل جائے تاکہ مخالفت جماعت کی صورت نہ لازم آئے ۔(فتاوی رضویہ ،ج7،ص214، 215، رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم