Ain Masjid Mein Azan Dena Aur Elanat Karna Kaisa?

عینِ مسجد میں اذان دینا اور اعلانات کرنا کیسا ؟

مجیب:مولانا عرفان مدنی صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-6866

تاریخ اجراء:13ربیع الثانی1441ھ/11دسمبر2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے کرام ان مسائل  کے بارے میں کہ

    (1)ہمارے ہاں گاؤں کی مرکزی مسجدمیں مائیک محراب میں رکھاہواہے ، تویہاں اذان پڑھناکیساہے؟

    (2)مزیدیہ بھی بتائیے کہ اس مائیک کے ذریعے مسجدمیں مختلف چیزوں کے اعلانات کرناکیساہے مثلا کسی چیزکی چوری،نہروں کی صفائی،نہری پانی کے وقت،شناختی کارڈ کی گاڑی آنے کے وقت اعلان کرنابھی اسی مسجدکے مائیک کےذریعے ہوتاہے ، تویہ اعلانات مسجدمیں کرناکیساہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    (1)محراب عینِ مسجدمیں شامل ہوتاہےاورعین مسجدمیں اذان دینامطلقاممنوع ومکروہ اورخلافِ سنت ہے۔

    محراب کے عین مسجدسے ہونے کے بارے میں  علامہ محمدامین ابن عابدین شامی علیہ رحمۃ اللہ الوالی لکھتے ہیں:”والمحراب وان کان من المسجد  الخ  انما بنی علامة لمحل قیام الامام لیکون قیامہ وسط الصف کماھوسنة“یعنی محراب اگرچہ مسجد ہی سے ہے الخ بس اسے اس غرض کے واسطے بنایاجاتاہے کہ صف کے درمیان کی نشانی رہے کیونکہ امام کا صف کے درمیان  میں کھڑا ہوناسنت ہے۔

(ردالمحتار،ج2،ص414مطبوعہ دارالکتب العلمیة،بیروت)

    اوراذان کے عین مسجدمیں ہونے  کی ممانعت کوبیان کرتے ہوئے امام فقیہ النفس قاضی خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:” وینبغی أن یؤذن علی المئذنةأوخارج المسجدلایؤذن فی المسجد “یعنی اذان مینارپریامسجد سے باہردینی چاہیے اورمسجدمیں اذان نہ دی جائے۔

(فتاوی خانیہ مع الھندیہ،ج01،ص78،مطبوعہ کوئٹہ)

    حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:”یکرہ ان یوذن فی المسجدکما فی القھستانی“ترجمہ:مسجدمیں اذان کہنا  مکروہ ہے ۔ جیساکہ قہستانی میں مذکورہے ۔

(حاشیةالطحطاوی علی المراقی الفلاح، ص197،مطبوعہ کوئٹہ )

    سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں لکھتے ہیں: ”مسجدکے اندراذان کاہوناائمہ نے منع فرمایااورمکروہ لکھاہے اورخلاف سنت ہے،یہ نہ زمانہ اقدس میں تھا،نہ زمانہ خلفاء راشدین نہ کسی صحابی کی خلافت میں۔بہر حال جبکہ زمانہ رسالت وخلافتہائے راشدہ میں نہ تھی اورہمارے ائمہ کی تصریح ہے کہ مسجدمیں اذان نہ ہو ، مسجد میں اذان مکروہ ہے ، توہمیں سنت اختیارکرناچاہیے بدعت سے بچناچاہیے۔ “

(فتاوی رضویہ، ج5، ص405، مطبوعہ رضافاؤنڈیشن ، لاھور)

    صدرالشریعہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:”اذان مئذنہ(مینارا) پر کہی جائے یاخارجِ مسجد اور مسجدمیں اذان نہ کہے۔مسجدمیں اذان کہنامکروہ ہے۔یہ حکم ہراذان کے لئے ہے،فقہ کی کسی کتاب میں کوئی اذان اس سے مستثنیٰ نہیں،اذانِ ثانی جمعہ بھی اس میں داخل ہے۔“

(بہار شریعت،ج1، ص469 ،مطبوعہ مکتبة المدینہ ، کراچی)

    (2)دریافت کردہ صورت میں مساجدمیں ان چیزوں کااسپیکروغیرہ پراعلان کرناناجائزوگناہ ہے،کیونکہ مساجدنمازاداکرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں،ان چیزوں کے اعلانات کرنے کے لیے نہیں بنائی جاتیں،البتہ ایسے اعلانات مسجدکے دروازے سے باہر یا فنائے مسجد میں کیے جاسکتے ہیں اوراگر اسپیکراستعمال کریں تواسپیکربھی مسجدسے باہرہو۔اوران کاموں کے لیے مسجدکا اسپیکربھی اسی صورت میں استعمال کیاجائے گا ، جبکہ وہ اسپیکر کسی شخص نے ذاتی طور پر دیا ہو اور ایسے اعلانات کی صراحتا یا دلالتا اجازت ہو یا لوگوں کے چندے سے ہو اور وہاں اس طرح کے اعلانات کے لیے مسجدکااسپیکراستعمال کرنے کاعرف بھی ہواور اس کے ساتھ مسجد کی بجلی کا بل بھی کوئی شخص ذاتی طور پر یہ جانتے ہوئے دیتا ہویا لوگوں کے چندے سے یہ بل ادا ہوتا ہو ، کیونکہ مسجد  کی اشیاء کو ان کے عرف کے مطابق ہی استعمال کیاجاسکتا ہے۔

    مسجدوں کو بنانے کے مقصد کے بارے میں حدیث پاک میں ہے:”عن ابی هريرة يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من سمع رجلا ينشد ضالة في المسجد  فليقل لا ردها الله عليك فان المساجد لم تبن لهذا“ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو کسی شخص کو سنے کہ وہ مسجد میں اپنی گمشدہ چیز کا اعلان کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ اسے کہہ دے کہ اللہ تعالی تیری چیز نہ لوٹائے ، مسجدیں اس کام کے لئے نہیں بنیں ۔

(الصحیح لمسلم ، کتاب المساجد ، ج1 ، ص 210 ، مطبوعہ کراچی)

    اسی بارے میں صحیح مسلم میں ہے:”عن بريدة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم لما صلى قام رجل فقال من دعا الى الجمل الاحمر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لا وجدت، انما بنيت المساجد لما بنيت له“ترجمہ :حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تو ایک شخص کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کون میرا سرخ اونٹ لے گیا ہے ؟ ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : وہ تجھے نہ ملے ،مسجدیں اسی کام کے لئے ہیں جس کام کے لئے بنائی گئی ہیں ۔

(الصحیح لمسلم ، کتاب المساجد ، ج1 ، ص 210 ، مطبوعہ کراچی)

    فتح القدیر میں ہے:”وینبغی أن یعرفھا فی الموضع الذی أصابھا فیہ یعنی الاسواق وابواب المساجد فینادی من ضاع لہ شیء فلیطلبہ عندی“ترجمہ:اور مناسب یہ ہے کہ وہ اس جگہ اعلان کرے، جہاں ملی یعنی بازاروں اورمساجد کے دروازوں میں، پس وہ اعلان کرے کہ جس کی کوئی چیز گم ہو گئی ہو ،تو وہ مجھ سے لے لے۔

(فتح القدیر،ج6،ص115 ،مطبوعہ کوئٹہ)

    اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:” شرع مطہر نے مسجد کو ہر ایسی آواز سے بچانے کا حکم فرمایا ہے ، جس کے لئے مساجد کی بنا نہ ہو۔“

(فتاوی رضویہ ، ج8 ، ص 408 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

    وقار الفتاوی میں ہے:”مسجد میں بھیک مانگنا جائز نہیں ہے،کیونکہ مسجدیں اس لئے نہیں بنائی گئیں کہ ان میں بھیک مانگی جائے ،مسجد میں بھیک دینا بھی ممنوع ہے،مسجد سے باہر دے سکتے ہیں،مسجد میں کسی گمشدہ چیز کو تلاش کرنا ،جائز نہیں، لہذا مسجد کے اسپیکر سے گمی ہوئی چیز کا اعلان کرنا بھی جائز نہیں ہے ۔ “

(وقار الفتاوی ،ج2 ص274 ،مطبوعہ بزم وقار الدین،کراچی)

    مسجد کی اشیاء کو عرف کے مطابق استعمال کرنے کے بارے میں فتاوی ہندیہ میں ہے”ولایجوز ان یترک فیہ کل اللیل الا فی موضع جرت العادۃ فیہ “ترجمہ: مسجد میں ساری رات چراغ جلانا ، جائز نہیں مگر جہاں اس کی عادت جاری ہوگئی ہو ، وہا ں جائز ہے ۔

(فتاوی ھندیہ،کتاب الوقف،الباب الحادی عشر،ج2،ص459،مطبوعہ کوئٹہ)

    مسجد کی چیزوں کو غیر مصرف میں خرچ کرنے کے حوالے سے بہار شریعت میں ہے ”مسجد کی اشیاء مثلا لوٹا چٹائی وغیرہ کو کسی دوسری غرض میں استعمال نہیں کر سکتے ۔۔یوہیں مسجد کے ڈول رسی سے اپنے گھر کے لئے پانی بھرنا یا کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بے موقع اور بے محل استعمال کرنا  ، ناجائز ہے۔“

(بہار شریعت ،ج2،ص561تا562 ،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم