Aik Tang Se Mazoor Shakhs Ki Imamat Ka Hukum

ایک ٹانگ سے معذور شخص کی امامت کا حکم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fsd-8149

تاریخ اجراء:21جمادی الاُولیٰ1444ھ/16دسمبر2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اِس مسئلے کے بارے میں کہ وہ شخص کہ جس میں امامت کی شرائط مکمل ہیں، لیکن ٹانگ کَٹی  ہوئی ہونے کے سبب  لنگڑا یعنی ٹانگ سے معذور  ہے۔ چلنے پھرنے کے لیے بیساکھی (Crutches)استعمال کرتا ہے، تو کیا ایسا شخص امامت کروا سکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ایسا  ٹانگ سے معذور  شخص کہ  جس میں امامت کی شرائط موجود ہیں،   رکوع وسجود پر قادِر ہے، نیز وہاں موجود افراد میں اُس سے زائد یا  برابر طہارت اور نماز کے مسائل جاننے والا  موجود  نہیں، تو اُس کی امامت بلاکراہت جائز ہے  اور اگر یہی شخص طہارت و نماز کے مسائل زیادہ جانتا ہے ،تو اِس کی امامت دیگر سے بہتر ہےاور اگر وہاں کوئی دوسرا ایسا فرد موجود ہے کہ جس  کے اعضاء بھی کامل ہیں،  امامت کی شرائط بھی موجود ہیں، نیز اِس  ٹانگ سے معذور کے برابر یا زائد مسائلِ نماز سے واقِف ہے، تو ایسے فرد کی موجودگی میں  ٹانگ سے معذور  کا امامت کرنا  خلافِ اَولیٰ ہے،  البتہ مقتدیوں کی نماز  پھر بھی ہو جائے گی۔

   اوپر نفس حکم بیان کر دیا گیا، البتہ یہاں ایک دوسرا پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ بعض اوقات ایسے فرد کی اقتداء میں نماز  پڑھنے سے لوگ تنفُّر محسوس کرتے ہیں اور اِس کے سبب مقتدیوں کی تعداد میں کمی واقع ہوتی ہے، لہذا اگر ایسی صورت حال ہو تو بہتر ہے کہ ایسا شخص ہی امامت کرے کہ جس کے اعضاء مکمل ہوں اور جامع شرائط ہو۔فقہائے کرام نے بعض ناقص الاعضاء افراد کی امامت کی کراہت کا مدار ”  تنفُّر “ بھی بنایا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اِس پہلو کو  بھی ملحوظ رکھا جائے۔

   علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:’’كذلك أعرج يقوم ببعض قدمه، فالاقتداء بغيره أولى تتارخانية، وكذا۔۔۔من له يد واحدة ‌فتاوى ‌الصوفية عن التحفة‘‘ ترجمہ:اِسی  طرح پاؤں کے بعض حصے پر کھڑے ہونے والے  ٹانگ سے معذور  شخص کے علاوہ دوسرے کی اقتدا بہتر ہے ۔ بحوالہ : ’’الفتاویٰ التتارخانیۃ“۔ یہی حکم (اس کا ہے) ۔۔۔ جس کا ایک ہاتھ ہو، اُن کی اقتدا کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔ بحوالہ:”فتاوى ‌الصوفية عن التحفة ‘‘۔  (ردالمحتار مع درمختار، جلد2، صفحہ360، مطبوعہ  کوئٹہ)

   فتاویٰ عا لمگیری میں ہے:’’ لو كان لقدم الإمام عوج وقام على بعضها يجوز وغيره أولى ‘‘ ترجمہ:اگر امام کے پاؤں  میں ٹیڑھا پن ہو کہ پورا پاؤں زمین پر نہیں جماسکتا، تب بھی اس کی امامت جائز ہے ،مگر (اس کے مقابلے میں)غیر معذور کی امامت بہتر ہے۔(الفتاوى الھندیۃ، جلد1، صفحہ84،مطبوعہ کوئٹہ)

   امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) سے سوال ہوا کہ  ایک شخص کا دائیاں ہاتھ ٹوٹ گیا ہے اور اب وہ اِس قابل نہیں کہ تکبیرِ تحریمہ کہتے وقت اپنے ہاتھ کو کان سے مس کر سکے، یعنی صرف ایک ہاتھ کان سے مس کر کے تکبیر تحریمہ کہتا ہے،  تو کیا اُس کے پیچھے نماز ہو جائے گی؟ کہ بعض لوگ اُس کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے انکار کرتے ہیں۔“  آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے جواباً لکھا:”خیال مذکور غلط ہے۔ اُس کے پیچھے جوازِ نماز میں کلام نہیں، ہاں غایت یہ ہے کہ اُس کا غیر اَولیٰ ہونا ہے، وہ بھی اُس حالت میں کہ یہ شخص تمام حاضرین سے علم مسائل نماز وطہارت میں زیادت نہ رکھتا ہو،  ورنہ یہی اَحقّ و اَولیٰ ہے۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد06،صفحہ450،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم