Aankhein Band Karke Namaz Parhna

آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنا کیسا ؟

مجیب: ابو حمزہ محمد حسان عطاری

مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: HAB-225

تاریخ اجراء: 22ربیع الآخر 1445ھ/07 نومبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ دار الافتاء اہلسنت سے ایک فتوی جاری ہوا  ہے کہ  نماز میں آنکھیں بند کرنا مکروہ تنزیہی ہے ، البتہ اگر خشوع حاصل ہوتا ہے تو آنکھیں بند کرکے نماز پڑھنا بہتر ہے ۔یہ مسئلہ کئی علما سے سنا بھی ہے ،لیکن  زید کا کہنا ہے کہ یہ درست  نہیں ، کیونکہ سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے جد الممتار میں یہ فرمایا ہے کہ آنکھیں بند کرنے کا مکروہ ہونا صرف قیام کی حالت کے ساتھ خاص ہے ۔ باقی اَرکان میں مکروہ نہیں ہے ۔ براہ کرم اس کی وضاحت فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   دار الافتاء اہلسنت کا فتوی بالکل درست ہے ۔  نماز میں آنکھیں بند رکھنا مطلقا مکروہ ہے ، البتہ نمازی کو ا ٓنکھیں بند رکھنے سے  خشوع وخضوع حاصل ہو ، تو اس کے لیے آنکھوں کا بند رکھنا بہتر ہے ۔

   زید نے جد الممتار کی عبارت کو مکمل  ذکر نہیں  کیا اور نہ ہی امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے مختار  اور مقصود کو سمجھا  ۔

   والتفصیل ذٰلک :

   فقہائے احناف نے نماز میں آنکھوں کے بند رکھنے کے مکروہ ہونے کی مختلف عِلَل بیان کی ہیں ۔

   1:بعض نے فقط حدیث مبارک  پر اقتصار کرتے ہوئے اسے  مکروہ قرار دیا ۔

   2:ایک علت یہ بیان کی گئی کہ چونکہ قیام کی حالت میں سجدے کی جگہ پر نظر رکھنا سنت ہے  اور آنکھیں بند رکھنے کی وجہ سے  اس سنت کا ترک ہوجائے گا اور یہ مکروہ ہے ۔

   3:جبکہ بعض  نے فقہ حدیث کا اعتبار کرتے ہوئے اس  کی علت اس کے خشوع وخضوع کے منافی ہونے کو  بیان کیا۔

   4:جبکہ اس  ممانعت کی ایک  علت یہود سے مشابہت کو بیان کیا گیا ہے ۔

   اعلی حضرت امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ردالمحتار میں بیان کردہ علت ’’قیام کی حالت میں سجدے کی جگہ پر نظر رکھنا۔۔۔الخ‘‘پر کلام  کرتے ہوئے فرمایا کہ جب اس کو پیش نظر رکھا جائے گا تو یہ ممانعت صرف قیام کے ساتھ خاص ہوگی ، کیونکہ فقہائے کرام نے سنت صرف قیام کی حالت میں سجدہ کی جگہ پر نظر کرنے کو قرار دیا ہے   ، رکوع وسجود قومہ جلسہ وغیرہ میں مختلف مقامات پر نظر رکھنا آداب میں سے شمار کیا گیا ہے اور آداب ومستحبات کا ترک مکروہ نہیں ہوتا ، مکروہ قرار دینے کے لیے دلیل درکار ہے  اور پھر آپ نے در مختار میں مذکور  علت  یعنی حدیث کو درست علت قرار دیا ۔

   اس کے بعد تیسری علت "یعنی خشوع اور خضوع کے منافی ہونا" کو  تبیین کے حوالے سے بیان کیا اور  اس علت کو دوسری علت سے بہتر قرار دیا  اور پھر چوتھی علت  حلبی کے حوالے سے ذکر کی اور  اسے سب سے زیادہ اظہر قرار دیا ۔ 

   اہل علم وافتاء سے یہ بات مخفی نہیں کہ یہ فقط ذکرِ اَقوال ہے ، اسے فتوی ومختار نہیں کہا جاتا ۔ امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا مؤقف وہی ہے جو دار الافتاء اہلسنت کے فتوی میں  بیان کیا گیا ہے ۔ کما سیأتي نص الإمام اور یہ فقط دوسری علت پر توضیح ہے ۔

   والتحقیق ذٰلک :

   امام طبرانی معاجم ثلاثہ میں اور حافظ ابن عدی  رحمہما اللہ تعالی  الکامل فی ضعفاء الرجال میں  حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ  وآلہ وسلم نے فرمایا:’’إذا قام أحدكم في الصلاة  فلا يغمض عينيه‘‘جب تم میں کوئی نماز پڑھے تو اپنی آنکھوں کو بند نہ کرے ۔(المعجم الصغیر ، جلد  1 ، صفحہ 37 ، حدیث 24)( المعجم الاوسط ، جلد 2 ، صفحہ 356 ، حدیث 2218  )(المعجم الکبیر ، جلد 11 ، صفحہ 34، رقم الحدیث 10956 )( الکامل فی ضعفاء الرجال ، جلد 9 ، صفحہ 585 ، رقم 16186 ، مطبوعات بیروت وضعفہ غیر واحد من الأئمۃ)

   بدائع الصنائع میں ہے :”ويكره أن يغمض عينيه في الصلاة؛ لما روي عن النبي صلى اللہ  عليه وسلم  أنه نهى عن تغميض العين في الصلاة؛ ولأن السنة أن يرمي ببصره إلى موضع سجوده وفي التغميض ترك هذه السنة؛ ولأن كل عضو وطرف ذو حظ من هذه العبادة فكذا العين “ ترجمہ : نماز میں آنکھیں بند کرنا مکروہ ہے،کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں آنکھیں بند کرنے سے  منع  فرمایا ہے  اور کیونکہ سنت یہ ہے کہ بندے کی آنکھیں  موضع سجود کی طرف ہوں اور  آنکھیں بند کرنے سے اس سنت کا ترک لازم آئے  گا اور اس لیے کہ ہر عضو اور طرف کے لیے اس عبادت میں سے حصہ ہوتا ہے پس آنکھ بھی ایسے ہی ہے ۔(بدائع الصنائع ، جلد  02، صفحہ 81، دار الحدیث ، القاھرۃ )

   تنویر الابصار مع درمختار میں ہے :”(وتغميض عينيه) للنهي إلا لكمال الخشوع  “ترجمہ: اپنی آنکھوں کو بند رکھنا (مکروہ ہے) کیونکہ اس سے منع کیا گیا ہے ، سوائے اس صورت کے کہ جب کمال خشوع حاصل ہوتا  ہو ۔

   اس پر  علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں  :”وعلل فی البدائع  بان السنۃ  ان یرمی ببصرہ الی موضع سجودہ ، وفی التغمیض ترکھا “ ترجمہ :  بدائع الصنائع  میں  اس کی  علت  یہ بیان کی گئی ہے کہ  سنت یہ ہے کہ بندے کی آنکھیں  موضع سجود کی طرف ہوں اور  آنکھیں بند کرنے سے اس سنت کا ترک لازم آئے گا  ۔(رد المحتار ، جلد 02، صفحہ 499، مطبوعہ کوئٹہ )

   بدائع میں موجود علت’’ سنت کے ترک کی وجہ سے آنکھوں کا بند کرنا مکروہ ہے‘‘ کا تقاضا یہ تھا کہ یہ کراہت صرف قیام کے ساتھ مخصوص ہو ، کیونکہ سنت صرف قیام میں موضع سجود کی طرف دیکھنے  کی ہے ، باقی اَرکان میں فقط استحباب ہے ۔

   اسی پر اعلی حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :’’ثم ھو ان ثبت کان مقتصراً علی کراھۃ التغمیض  حالۃ القیام ، اما الرکوع و السجود والقعود   فیندب   النظر فیھا الی القدم والارنبۃ  والحضر ، ولم یثبت کونہ سنۃ ، وانما عدّ وہ من الآدا ب ، وما یلزم منہ ترک فضیلۃ فلایحکم بکراھتہ بل لابد  لھا من دلیل خاص  ، فلعل الوجہ ما مشی علیہ الشارح رحمہ اللہ تعالی‘‘ ترجمہ :  پھر  وہ ممانعت ( نماز کی حالت میں  آنکھیں بند کرنے کی  )اگر ثابت بھی ہوگی ،تو  حالت قیام میں  آنکھیں بند کرنے کی کراہت ( تنزیہی) پر   محمول ہوگی  ، رہی بات رکوع  ،سجود اور قعود کی ، تو ان میں قدم ،ناک  اور گود میں نظر کرنا مستحب ہے ،لیکن یہ سنت سے ثابت نہیں ہے ، علمائے کرام نے اس کو محض نماز کے آداب میں سے شمار کیا ہے اور اس سے فقط  فضیلت کو چھوڑنا لازم آئے گا ،اس  پر کراہت کا حکم نہیں لگے گا، بلکہ اس کے لیے دلیل خاص کا ہونا ضروری ہے ،شاید مکروہ ہونے کی علت وہی جس کو شارح علیہ الرحمۃ نے بیان فرمایا ہو۔( جد الممتار ، جلد 3 ، صفحہ 400 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ ، بیروت )

   واضح ہوگیا کہ امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالی علیہ نماز میں مطلقا آنکھیں بند کرنے کو مکروہ قرار دے رہے ہیں ، اس کو قیام دون غیرہ کے ساتھ مختص نہیں فرمارہے  ۔

   اسی بات کو آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فتاوی رضویہ میں یوں ارشاد فرمایا:” خادم فقہ  جانتا ہے  تحصیل مقصود کے لئے  بعض مکروہات سے  کراہت زائل ہوجاتی ہے ،جیسے نماز میں   آنکھیں بند کرنا مکروہ ہے  اور خشوع یونہی ملتا ہے   ، تو آنکھیں بند کرنا ہی اَولیٰ۔کما فی  الدر المختار  کرہ تغمیض  عینیہ   للنھی   الا لکمال   الخشوع، و فی رد المختار بان خاف  فوت الخشوع   بسبب رؤیۃ   ما یفرق  الخاطر  فلا یکرہ   بل قال بعض العلماء:   انہ الاولی،   و لیس ببعید  حلبہ و بحر۔  اقول: و لعل  التحقیق   ان بخشیۃ  فوات الخشوع   تزول الکراھۃ   و بتحققہ  یحصل الاستحباب  ، و اللہ تعالی اعلم(ترجمہ: )جیسا کہ  در  مختار میں ہے :  نہی  کی وجہ سے  اپنی دونوں آنکھیں بند کرنا  مکروہ ہے    البتہ اگر (آنکھیں بند کرنے کی وجہ سے) کمال خشوع حاصل ہو (تو مکروہ نہیں)   اور رد المحتار میں ہے:     بایں طور کہ   اگر  خیال کو بٹانے  والی چیزیں دیکھنے  کی  وجہ سے   خشوع  کے فوت ہونے  کا اندیشہ ہو    تو مکروہ  نہیں ، بلکہ بعض علماء کرام نے  فرمایا کہ ( اس صورت  میں آنکھیں بند کرنا) اَولیٰ ہےاور یہ بعید نہیں ہے۔ حلبہ و بحر ( میں اسی طرح ہے)  ۔   میں کہتا ہوں:    شاید تحقیق یہ ہے کہ  خشوع کے فوت ہونے   کے اندیشے کے سبب  کراہت ختم ہوجائے گی اور اگر خشوع    حاصل ہوتا ہو ، تو پھر اس صورت میں     استحباب حاصل ہوجائے گا۔  واللہ تعالی اعلم بالصواب۔“(فتاوی رضویہ ، جلد 9 ، صفحہ 156 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   اسی اطلاق کو اکثر کتب معتبرہ مثلا:کنز الدقائق   صفحہ 176 ؛ متن المختار ، جلد 1 ، صفحہ 62  ؛ تحفۃ الملوک ، صفحہ 84 ؛ مواھب الرحمن ، صفحہ 179   ؛ فتاوی قاضی خان ، جلد 1 ، صفحہ 157 ؛ تحفۃ الفقھاء ، جلد 1 ، صفحہ 142 ؛ الدرر والغرر ، جلد 1 ، صفحہ 106وغیرہ میں  اختیار کیا گیا ہے ۔

   نہر الفائق اور بحر الرائق میں اس علت کے اطلاق کے پیش نظر سجدے میں آنکھیں بند رکھنے کی کراہت کو بیان فرمایا ہے۔

   نہر  الفائق میں ہے :”کرہ تغمیض عینیہ ولو  فی السجود کما ھو ظاھر الاطلاق للنھی عن ذالک“ ترجمہ : نماز میں آنکھیں بند کرنا مکروہ ہے اگرچہ بندہ سجدہ میں ہو جیسا کہ  حدیث پاک کا ظاہری اطلاق ہے کہ  آنکھیں بند کرنے پر نہی وارد ہوئی ہے ۔( النھر الفائق ، جلد 01، صفحہ 282، طبع دار الکتب العلمیہ )

   اسی طرح بحر الرائق میں ہے :وظاهر كلامهم أنه لا يغمض في السجود وقد قال جماعة من الصوفية نفعنا الله بهم :يفتح عينيه في السجود لأنهما يسجدان “ ترجمہ : فقہائے کرام کے کلام سے ظاہر ہے  کہ سجدے میں بھی آنکھیں بند نہ کی جائیں اور صوفیہ کی ایک  جماعت نے فرمایا: (اللہ عزوجل ان  سے  ہمیں نفع عطا فرمائے ) کہ سجدے میں اپنی آنکھیں کھلی رکھے ، کیونکہ دو نوں آنکھیں سجدہ کرتی ہیں ۔ ( البحر الرائق ، جلد 02 ، صفحہ  45 ، طبع دار احیاء التراث ، بیروت )

   نیز اس کی ایک علت خشوع وخضوع کا حصول ہے اور  یہ علت بھی تخصیص بالقیام کی نفی کرتی ہے۔

   امام زیلعی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تبیین الحقائق میں فرماتے ہیں :”ولانہ ینافی الخشوع و فیہ نوع وعبث“ترجمہ :اور کیونکہ یہ ( نماز میں آنکھیں بند کرنا مکروہ ہے )خشوع کے منافی ہے اور ایک عبث کام کرنا ہے ۔( تبیین الحقائق ، جلد  01 ، صفحہ 411، مطبوعہ کوئٹہ)

   امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس علت کے حوالے سے لکھتے ہیں :” واحسن منہ تعلیل الامام الزیلعی (بانہ ینافی الخشوع و فیہ نوع عبث) “اور اس  سے  اچھی علت وہ ہے  جس کو امام زیلعی علیہ الرحمۃ نے بیان فرمایا: یہ ( نماز میں آنکھیں بند کرنا  )خشوع کے منافی ہے  ،اور ایک عبث کام  ہے ۔( جد الممتار  ، جلد 03 صفحہ 400مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ ، بیروت )

    صاحب ہدایہ اپنی تصنیف التجنیس والمزید میں فرماتے ہیں :”و یکرہ  أن یغمض  المصلی عینیہ فی الصلاۃ ،لانہ عادۃ الیھود “ ترجمہ : نمازی کے لئے نماز  میں آنکھیں بند کرنا مکروہ ہے، کیونکہ یہ یہودیوں کی عادت ہے ۔ ( کتاب التجنیس  ، جلد 1 ، صفحہ 520، مطبوعہ بیروت )

    علامہ شلبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تبیین کے حاشیہ میں فرماتے ہیں:’’لأنه تشبه باليهود ذكره في الدراية نقلا عن الفتاوى الظهيرية‘‘ ترجمہ: (نماز میں آنکھوں کا بند رکھنا مکروہ ) اس لیے ہے کہ یہ یہودیوں کے ساتھ تشبہ ہے ،اسے درایہ میں فتاوی ظہیریہ کے حوالے سے ذکر کیا ہے ۔ (حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق ، جلد 1 ، صفحہ 164 ، طبع کوئٹہ)

   یہی بات  علامہ محمد بن محمد المعروف ابن امیر الحاج الحلبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے حلبۃ المجلی  جلد 2 ، صفحہ 454 پر ارشاد فرمائی ہے ۔

   امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس پر فرماتے ہیں :’’و اظھر من الکل ما فی " الحلبی "(انہ صنیع اھل الکتاب )‘‘ ان تمام عِلَل سے ظاہر علت وہ ہے ، جو حلبہ میں بیان فرمائی کہ یہ  اہل کتاب کا طریقہ ہے ۔( جد الممتار  ، جلد 03 ، صفحہ 400 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ ، بیروت )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم