Aadhi Kalai Tak Charhi Hui Aasteen Namaz Ke Doran Neeche Karne Ka Hukum

 

آدھی کلائی تک چڑھی ہوئی آستینیں نماز کے دوران نیچے کرنے کا حکم

مجیب:مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2947

تاریخ اجراء: 03صفر المظفر1446 ھ/09اگست2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   نماز کے دوران کف، ہاف کلائی  تک فولڈ تھے،ایک رکعت پڑھنے کےبعد سیدھے کیے تو  نماز کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں اگر عملِ قلیل(معمولی عمل) کے ذریعے آستین کو سیدھا کرلیا ،تو اس صورت میں نماز ہوجائے گی اور اگر عملِ کثیر کے ذریعے آستین کو سیدھا کیا (یعنی اس طریقے سے سیدھاکیاکہ دور سے  دیکھنے والے کواس  کے نماز میں نہ ہونے کا غالب گمان ہو) تو نماز فاسد ہوجائے گی اور اس نماز کو دوبارہ پڑھنا لازم  ہوگا۔

   یاد رہے کہ مذکورہ حکم اُسی صورت میں ہے کہ اگر کف آدھی کلائی تک یا اس سے کم فولڈ کیے تھے ،ہاں اگر کف آدھی کلائی سے زیادہ فولڈ تھے،تو اگرچہ ایک رکعت کے بعد عملِ قلیل کے ذریعے اسے درست کرلیا ہو،تب بھی نماز مکروہ تحریمی ہوگی اور اِس نماز کا اعادہ (دوبارہ پڑھنا ) واجب ہوگا۔

   در مختار میں ہے ”(و)یفسدھا( کل عمل کثیر) لیس من اعمالھا ولا لاصلاحھا،وفیہ اقوال خمسۃ ، اصحھا (ما لا یشک ) بسبہ ( الناظر ) من بعید (فی فاعلہ انہ لیس فیھا )وان شک انہ فیھا ام لا فقلیل“یعنی ہر  عملِ کثیر جو نہ نماز کے اعمال میں سے ہو اور نہ ہی اصلاح نماز کے لئے وہ نماز کو فاسد کردیتا ہے ،اور اس میں پانچ اقوال ہیں ،ان میں اصح یہ ہے کہ عمل کثیر ہر ایسا عمل ہے جس کے سبب دور سے دیکھنے والے کواس کے کرنے والے کے متعلق شک نہ ہو کہ وہ نماز میں نہیں ہے ،اور اگر دیکھنے والے کو یہ شک ہو کہ وہ نماز میں ہے یا نہیں تو وہ عمل قلیل ہوگا ۔(در مختار مع رد المحتار،کتاب الصلاۃ،ج 1،ص 625،دار الفکر،بیروت)

   بہار شریعت میں ہے"عملِ کثیر کہ نہ اعمال نماز سے ہو نہ نما زکی اصلاح کے ليے کیا گیا ہو، نماز فاسد کر دیتا ہے، عملِ قلیل مفسد نہیں، جس کام کے کرنے والے کو دُور سے دیکھ کر اس کے نماز میں نہ ہونے کا شک نہ رہے، بلکہ گمان غالب ہو کہ نماز میں نہیں تو وہ عملِ کثیر ہے اور اگر دُور سے دیکھنے والے کو شبہہ و شک ہو کہ نماز میں ہے یا نہیں، تو عملِ قلیل ہے۔"(بہار شریعت،ج 1،حصہ 3،ص 609، مکتبۃ المدینہ)

   حلبۃ المُجلی میں ہے”ینبغی ان یکرہ تشمیرھا الی ما فوق نصف الساعد لصدق کف الثوب علی ھذا“یعنی آستینوں کا آدھی کلائی سے اوپر تک چڑھائے ہونا بھی مکروہ ہونا چاہیے ،کیونکہ کپڑا سمیٹنا اس پر بھی صادق آتا ہے۔(حلبۃ المجلی ، ج 2 ،ص 287 ، دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

   امام اہلسنت  الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں : ”تمام متونِ مذہب میں ہے : ”کرہ کف ثوبہ“ ۔۔۔تو لازم ہے کہ آستینیں اتار کر نماز میں داخل ہو اگرچہ رکعت جاتی رہے اور اگر آستین چڑھی نماز پڑھے ، تو اعادہ کی  جائے،کما ھو حکم صلاۃ ادیت مع الکراھۃ(جیسا کہ ہر اس نماز کا حکم ہے ، جو کراہت کےساتھ ادا کی گئی ہو ۔ )“(فتاوی  رضویہ ، ج  7 ، ص  310 ، 311 ، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرتِ علاّمہ مولانا  مفتی  محمدامجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ  القوی فرماتے ہیں : ” کوئی آستین آدھی کلائی سے زیادہ چڑھی ہوئی یا دامن سمیٹے نماز پڑھنا بھی مکروہِ تحریمی ہے،خواہ پیشتر سے چڑھی ہو یا نماز میں چڑھائی۔“(بہار شریعت،ج 1،حصہ 3،ص 624،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم