Aabai Shahar Se Dusre Shahar Shift Hone Par Aabai Shahar Me Namaz Ka Hukum

آبائی شہر سےدوسرے شہر شِفٹ ہو گئے، تو آبائی شہر میں نماز کا حکم

مجیب: مفتی ابومحمد علی اصغرعطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-11922

تاریخ اجراء:       13جُمادَی الاُولیٰ1443 ھ/18دسمبر 2021   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ زید کی پیدائش راولپنڈی کی ہے،   پنڈی سے ترک ِسکونت کی نیت کرتے ہوئے زید بیوی بچوں سمیت مستقل طور پر کراچی منتقل ہوچکا ہے ۔ اب یہاں کراچی سے کسی اور جگہ  جانے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں۔ البتہ زید کی زمینیں اور اس کے کچھ رشتہ دار ابھی بھی راولپنڈی میں ہی مقیم ہیں۔

   مفتی صاحب آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ بیان کردہ  صورت  میں زید جب کراچی سے راولپنڈی اپنے رشتہ داروں سے ملنے جاتا ہے ،جبکہ زید کا وہاں قیام پندرہ دن سے کم کا ہوتا ہے، تو کیا اس صورت میں زید راولپنڈی میں نماز قصر پڑھے گا یا پھر پوری نماز ادا کرے گا؟رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں زید راولپنڈی میں قصر  نماز ادا کرے گا۔

   مسئلہ کی تفصیل یہ ہے کہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق وطنِ اصلی اپنی مثل دوسرے وطنِ اصلی سے باطل ہوجاتا ہے ،اب جبکہ صورتِ مسئولہ میں زید راولپنڈی کی سکونت ترک کرکے اپنے اہل و عیال کے ساتھ مستقل طور پر کراچی شفٹ ہوچکا ہے، تو اب راولپنڈی زید  کے لیے وطنِ اصلی نہ رہا۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں زید راولپنڈی میں پندرہ دن سے کم قیام کی صورت میں شرعاً مسافر ہوگا اور قصر  نماز ادا کرے گا۔

   چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے: ”فالوطن الأصلی ينتقض بمثله لا غير وهو: أن يتوطن الإنسان في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها من بلدته فيخرج الأول من أن يكون وطناً أصلياً، حتى لو دخل فيه مسافرا لا تصير صلاته أربعاًیعنی وطنِ اصلی فقط اپنی مثل وطنِ اصلی ہی سے باطل ہوتا ہےاور اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے شہر کو اپنا وطن بنالے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ اپنے وطنِ اصلی سے اس دوسرے شہر کی طرف منتقل ہوجائے، تو اس صورت میں وہ پہلا شہر وطنِ اصلی ہونے سے نکل جائے گا، یہاں تک کہ جب وہ شخص سفر کرتے ہوئے اپنے اس پہلے شہر میں داخل ہوگا ،تو  نماز چار رکعت کی نہیں ہو گی (یعنی قصر کرے گا۔)(بدائع الصنائع، کتاب الصلوٰۃ،   ج 01، ص 339،  دار الحدیث ،قاھرہ)

   نیز فتاوٰی شامی میں منقول ہے:”قال فی النهر: ولو نقل أهله ومتاعه وله دور فی البلد لا تبقى وطنا له، وقيل تبقى، كذا فی المحيط وغيره“ ترجمہ: صاحبِ نہر نے فرمایا: اگر کوئی شخص اپنے اہل وسامان کو اس پہلی جگہ  سے منتقل کرلے، لیکن اس شہر میں اس کا گھر موجود ہو، تو اس صورت میں وہ پہلا شہر اس شخص کے لیے وطنِ اصلی نہ رہے گا اور ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ شہر بھی وطنِ اصلی رہے گا، جیسا کہ محیط وغیرہ میں مذکور ہے۔“(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ،  ج 02، ص 739، مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوٰی مذکورہ بالا عبارت کے تحت سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ جد الممتار میں نقل فرماتے ہیں:”قولہ:(لو نقل اھلہ و متاعہ ولہ دور فی البلد لا تبقی وطناً لہ و قیل تبقی)والیہ  اشار محمد  فی الکتاب کذا فی الزاھدی،ھندیہ،اقول یظھر للعبد الضعیف ان  نقل الاھل  والمتاع  یکون علی وجھین  احدھما  ان ینقل  علی عزم  ترک التوطن  ھاھنا ،والآخر:لا علی ذلک ،فعلی الاول  لا یبقی الوطن  وطنا  وان بقی لہ  فیہ دور  وعقار ،وعلی الثانی  یبقی “یعنی مصنف علیہ الرحمۃ کاقول(اگرکوئی شخص اپنےاہل وسامان کومنتقل کردےاوراس شہرمیں اس کاگھرہو،وہ شہراس کےحق میں وطن اصلی نہ رہےگااورکہاگیا وطن اصلی رہےگا)اسی طرف امام محمد علیہ الرحمۃ نےکتاب میں اشارہ کیا،اسی طرح زاہدی میں ہے "ہندیہ"۔میں کہتاہوں بندہ ناچیز پرآشکارہواکہ اہل اورسامان کونقل کرنادوصورتوں پرہے،ایک تویہ کہ اس شہرسےرہائش ختم کرنےکے ارادہ سےاہل وسامان نقل کیاجائے،دوسری صورت یہ کہ رہائش ختم کرنےکاارادہ نہ ہو،پس پہلی صورت میں وہ شہر وطن اصلی نہ رہےگا،اگرچہ وہاں گھراورجائیدادہو،اوردوسری صورت میں وطن اصلی رہےگا۔(جد  الممتار، کتاب الصلاۃ،  ج03،ص572، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مفتی وقار الدین علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ”ایک شخص نے اپنے آبائی گاؤں سے ایک ہزار میل دور ملازمت اختیار کی اور مع اہل و عیال سکونت پذیر ہوگیا۔ جب کسی کام سے آبائی گاؤں جاتا ہے، اگر وہاں پندرہ دن سے کم رہنے کی نیت کرے ،تو آیا نماز قصر پڑھے گا یا پوری؟“ آپ علیہ الرحمۃ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”جب گاؤں سے سکونت ترک کرکے دوسری جگہ سکونت اختیار کرلی اور مع اہل و عیال کے یہاں رہنے لگا، تو اُس جگہ مقیم ہوگیا۔ گاؤں میں مکان اور رشتے داروں کے ہونے سے یہ وہاں کا باشندہ شمار نہ ہوگا۔ لہذا جب پندرہ دن کے رہنے کے ارادے سے گاؤں جائے گا، تو نماز پوری پڑھے گا۔ اس سے کم رہنے کے ارادہ سے جائے گا، تو قصر پڑھے گا۔ آتے جاتے راستے میں بہر حال قصر پڑھے گا ۔(ملخصاً از وقار الفتاوی،ج02،ص141،بزم وقار الدین، کراچی)

     فتاوٰی خلیلیہ میں ہے:”اگر مختلف مقامات پر مکانات ہیں یا زمین ہیں یا اس کا کاروبار ہے، تو وطنِ اصلی وہ جگہ مانی جائے گی جہاں اس کے اہل و عیال رہتے ہوں۔ دوسرے مقامات پر اگر پندرہ روز اقامت کی نیت سے جائے گا، نماز پوری پڑھے گا کہ اب وہ اس کا وطنِ اقامت ہے ،ورنہ قصر ہی کرے گا۔ لان المعتبر فی کونہ وطناً اصلیاً الاھلی (فتاوٰی خلیلیہ،ج 01، ص 262، ضیاءالقرا ن)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم