92 Kilometer Ki Musafat Par 15 Din Teherna Ho To Raste Ki Namazon Ka Hukum

92 کلو میٹر کی مسافت پر 15 دن ٹھرنا ہو تو راستے کی نمازوں کا حکم

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-048

تاریخ اجراء: 27محرم الحرام5144ھ/15 اگست 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص 92 کلو میٹر یا اس سے زیادہ دور کسی جگہ جارہا ہو اور وہاں اس نے پندرہ دن ٹھہرنا بھی ہو تو کیا ایسی صورت میں وہ دورانِ سفر نمازوں میں قصر کرے گا یا نہیں؟جیسے کوئی شخص مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ یا بغداد شریف جارہا ہو اور وہاں  پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت  اپنے گھر سے کرلی ہو، تو اب وہاں پہنچنے تک نمازیں کیسے پڑھے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر کوئی شخص شرعی مسافت یعنی 92کلو میٹر یا اس سے زیادہ  دور کسی جگہ سفر کے لیے جائے اور وہاں اُس کا پندرہ دن ٹھہرنے کا ارادہ ہو، تو ایسی صورت  میں جب وہ اپنے شہر کی آبادی سے باہر ہوگا اس وقت سے مسافر ہوجائے گا اوردوسرے شہر کی آبادی  میں داخل ہونے تک مسافر ہی  رہے گا،لہذااس دوران یعنی اپنےشہر کی آبادی  سے باہر ہونے کے بعد سےدوسرے شہر کی شرعی حدود میں داخل ہونے سے پہلےتک راستے بھر  چار رکعت والی نمازوں میں قصر کرے گا۔ہاں  جب اس  دوسرےشہر کی شرعی حدود میں داخل ہو گا،توپندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کے ارادے کی وجہ سے مقیم ہوجائے گا،لہذا اب   قصر کا حکم ختم ہوجائے گا اور پوری نمازیں ہی  پڑھے گا،اگرچہ وہ ابھی  شہر کے اندر اس جگہ  نہ پہنچا ہو جہاں اس نے قیام کرنا تھا۔

   مبسوط سرخسی میں ہے:’’فإذا قصد مسيرة ثلاثة أيام قصر الصلاة حين تخلف عمران المصر؛ لأنه مادام في المصر فهو ناوي السفر لا مسافر، فإذا جاوز عمران المصر صار مسافرا، لاقتران النية بعمل السفر‘‘ترجمہ:جب کوئی شخص تین دن کی راہ کا ارادہ کرے، تو جب وہ(اقامت والے) شہر کی آبادی سے باہر نکل جائے ،تو نمازیں قصر کرے،کیونکہ جب تک وہ  شہر میں ہے،محض سفر کی نیت کیے ہوئے ہے،مسافر نہیں ہے،ہاں جب شہر کی آبادی سے باہر نکل جائے ،تو  نیت کے، عملی سفر کے ساتھ مل جانے کی وجہ سے وہ مسافر بن جائے گا۔ (مبسوط سرخسی،جلد1،باب صلاۃ المسافر،صفحہ235،دار احیاء التراث العربی)

   ہدایہ  میں ہے:’’(اذا  فارق المسافر بیوت المصر،صلی  رکعتین )لان الاقامۃ تتعلق  بدخولھا فیتعلق السفر  بالخروج عنھا‘‘ترجمہ:جب مسافر شہر کے گھروں(یعنی آبادی) سے نکل جائے ،تو وہ دو رکعت  پڑھے گا،کیونکہ     اقامت  کا تعلق شہر کے گھروں سے ہوتا ہے، تو سفر کا تعلق بھی شہر کے گھروں سے نکلنے پر ہوگا۔ (ھدایہ،جلد2،باب صلوۃ المسافر،صفحہ101،مطبوعہ کراچی)

   سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”زید  جب وطن سے اُس شہر کے قصد پرچلا اور وطن کی آبادی سے باہر نکل گیا اس وقت سے قصر واجب ہوگیا، راستے بھر تو قصر کرے گا ہی اور اگر اُس شہر میں پہنچ کر اس بار پندرہ روز یا زیادہ قیام کا ارادہ نہیں، بلکہ پندرہ دن سے کم میں واپس آنے یا وہاں سےاور کہیں جانے کا قصد ہے،تووہاں جب تک ٹھہرے گا اس قیام میں بھی قصر ہی کرے گا اور اگر وہاں اقامت کا ارادہ ہے ،تو صرف راستہ بھر قصر کرے، جب اس شہر کی آبادی میں داخل ہوگا قصر جاتا رہے گا۔“(فتاوی رضویہ، جلد8، صفحہ258،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   بہارِ شریعت میں ہے:”مسافر کا حکم اس وقت سے ہے کہ بستی کی آبادی سے باہر ہو جائے، شہرمیں ہے ،تو شہر سے، گاؤں میں ہے تو گاؤں سے اور شہر والے کے ليے یہ بھی ضرور ہے کہ شہر کے آس پاس جو آبادی شہر سے متصل ہے ،اس سے بھی باہر ہو جائے۔‘‘(بھارِ شریعت، حصہ 4،صفحہ742، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم