92 Kilometer Ka Fasla Ghar Se Shumar Hoga Ya Shehar Se Nikal Kar ?

92 کلومیٹر کا فاصلہ کہاں سے شمار ہوگا، جہاں سے چلا ہے، یا شہر سے نکل کر ؟

مجیب:مفتی محمد ھاشم خان  عطاری

فتوی  نمبر:97

تاریخ  اجراء: 23 ذوالقعدۃ الحرام 1431ھ/10 نومبر 2010ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مسافر کا 92 کلومیٹر والا فاصلہ کہاں سے شمار ہوگا،جہاں سے چلا ہے وہاں سے یا شہر سے نکل کر؟یونہی اگر گھر سے لے کر دوسرے مقام تک 92کلو میٹر سفر بنتا ہے، جبکہ دونوں شہروں کے درمیان کا فاصلہ 92کلومیٹر نہیں تو اب مسافر بنے گا یا نہیں؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

   فاصلہ شہر سے نکل کرشمارکیا جائے گاکیونکہ

   اولاً:وہ شہر(اورفنائے شہر) سے نکل کرہی مسافر شمار ہوتاہے ، اس سے پہلے مسافر نہیں ہوتا۔

    علامہ ابن عابدین  شامی رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں: ’’فلایصیر مسافرا قبل ان یفارق عمران ماخرج منہ من الجانب الذی خرج حتی لوکان ثمۃ محلۃ منفصلۃ عن المصر وقد کانت متصلۃ بہ لایصیر مسافر ا مالم یجاوز ھا ‘‘تو مسافرکا حکم اس وقت سے ہے کہ بستی کی آبادی سے اس جانب سے باہر ہوجا ئے جس جانب سے وہ نکلے حتی کہ اگر وہ ایسے محلہ میں ہے کہ جو شہر سے جدا ہے حالانکہ وہ پہلے شہر سے متصل تھا تو جب اس سے بھی باہر ہوگا تو مسافر ہوگا ۔( ردالمحتار، جلد 2،صفحہ723 ،مطبوعہ کوئٹہ)

   محیط برھانی میں ہے:’’مادام فی عمرانات المصر فھو لایعد مسافراً  ‘‘جب تک شہرکی  آبادی میں رہے گا تب تک مسافر شمار نہیں ہوگا۔( المحیط البرہانی،جلد02، صفحہ 387،مطبوعہ ادارۃ التراث الاسلامی لبنان)

   بدائع الصنائع میں ہے:’’فعل السفر لایتحقق الابعد الخروج من المصر‘‘ سفر کا فعل شہر سے نکلنے کے بعد ہی ثابت ہوگا۔( بدائع الصنائع،جلد01، صفحہ 477، مطبوعہ کوئٹہ)

   ثانیاً:مسافر کی تعریف ہی اس طرح کی ہے کہ مسافر وہ ہے جوکہ تین دن(مسافت کی مقدار) کے ارادے سے موضع اقامت(شہر یا قریہ) سے نکلے۔

   علامہ شمس الدین تمرتاشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’من خرج من عمارۃ موضع اقامتہ قاصداًمسیرۃ ثلاثۃ ایام ولیالیھا‘‘جو شخص تین دن اور تین راتوں کی راہ تک جانے  کے ارادہ سے اپنی اقامت والی آبادی سےباہر ہوا۔( تنویر الابصار،جلد02، صفحہ 722تا724،مطبوعہ کوئٹہ)

   اس کے تحت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’(قاصداً)اشار بہ مع قولہ ’’خرج ‘‘  الی انہ لوخرج ولم یقصد اوقصد ولم یخرج لایکون مسافراً ‘‘ماتن  رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے قول(خارج ہو) کے ساتھ( قصد سے) کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا کہ اگر نکلے مگر قصد نہ ہو یا قصد ہو مگر خارج نہ ہو تو مسافر نہیں ہوگا۔( ردالمحتار ،جلد02، صفحہ 723،مطبوعہ کوئٹہ)

   ثالثاً:مسافر ہونے کے احکام بھی شہر سے نکلنے کے بعد لگتے ہیں۔

   شیخ محمد بن علی بن محمد رحمۃ اللہ علیہ ارشادفرماتے ہیں: ”من جاوز بیوت مصرہ من جانب خروجہ مریدا سیر اوسطا ثلاثۃ ایام قصر الفرض الرباعی‘‘یعنی جو اپنے شہر کے گھروں سے  اپنے نکلنے کی جانب سےتین دن کی راہ کے ارادہ سے باہر ہوا تو وہ چاررکعتی نمازمیں قصر کرے گا۔( ملتقی الابحر مع مجمع الانہر،جلد01،صفحہ 237-238، مطبوعہ کوئٹہ)

   رابعاً:فقہاء جب مسافتِ شرعی کا ذکر کرتے ہیں تو اس طرح کرتے ہیں کہ یہ مسافرجس شہر میں جارہا ہے وہ شہر تین دن کے فاصلے پرہے تو مسافرہوگا ورنہ نہیں۔یعنی پہنچنے میں شہر کا اعتبار کرتے ہیں تو چلنے میں بھی شہر کا اعتبار ہونا چاہیے۔

    بحر الرائق میں ہے:’’ذکر الاسبیجابی المقیم اذا قصد مصراً من الامصار وھو مادون مسیرۃ ثلاثۃ ایام لایکون مسافراً،ولو انہ خرج من ذلک المصر الذی قصد الی مصر آخر وھو ایضاً اقل من ثلاثۃ ایام فانہ لایکون مسافراً وان طاف آفاق الدنیا علی ھذا السبیل لایکون مسافراً‘‘ترجمہ:اسبيجابی نے ذکر کیا ہے کہ مقیم جب کسی شہر کا قصد کرے اور وہ شہر تین دن سے کم فاصلے پر ہو تو یہ مسافر نہیں ہوگا ،اور اگر اس مقصود شہر سے (پھرآگے کے لیے)نکلا اور وہ بھی تین دن سے کم فاصلے پر ہے، تو وہ مسافر نہیں ہوگا اگرچہ اس طور پر پوری دنیا گھوم لے۔ (بحر الرائق،جلد2، صفحہ 228، مطبوعہ کوئٹہ )

    خامساً: فقہاء نے بھی دوشہروں کے فاصلے کو معیار بنایا۔

   بنایہ میں سفر کی مقدار کے بارے میں مختلف اقوال نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:’’عن أبي وائل شقيق بن سلمة أنه سئل عن القصر من الكوفة إلى واسط، فقال: لا يقصر الصلاة في ذلك، وبينهما مائة وخمسون ميلا، وعن الحسن بن حي في رواية: لا قصر في أقل من اثنين وثمانين ميلا ‘‘ حضرت  ابو وائل بن شقیق بن سلمہ سے کوفہ سے لے کر واسط تک کی مسافت میں قصر کرنے کے متعلق سوا ل ہوا ،تو فرمایا: اس میں  نماز قصر نہیں  اور ان کے درمیان ایک سو پچاس میل ہیں اور حسن بن حی سے ایک روایت میں ہے:بیاسی میل سے کم میں قصر نہیں ،جیسا کہ کوفہ سےبغداد۔( البنایۃ فی شرح الہدایۃ،جلد3، صفحہ 242،مطبوعہ ملتان)

   سادساً:امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کرتے ہوئے ایک سائل نے وطن سے فاصلہ شمار فرمایا اور امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے اسے برقرار رکھا۔

   چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہواکہ’’زید کے وطن سے ایک مقام تیس کوس کے فاصلے پر واقع ہے اور زید نے ایسی راہ سے سفر کیا کہ اس مقام تک چالیس کوس مسافت طے کرنی ہوئی ،تو زید پر نماز کا قصر ہے یا نہیں؟‘‘تو جواباً ارشاد فرمایا:’’ہے جبکہ قصد دو جگہ پر منقسم نہ ہو۔‘‘( فتاوی رضویہ،جلد8،صفحہ 254، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   سابعاً: بلکہ قدوری کے اندر صراحت ہے کہ تین دن کا فاصلہ(شرعی مسافت) شہر سے شمار ہوگا۔

   چنانچہ اس میں لکھا ہے:’’ان یقصد الانسان موضعاً بینہ وبین مصرہ مسیرۃ ثلاثۃ ایام فصاعداً‘‘انسان ایسی جگہ کا قصد کرے کہ اس جگہ اور انسان کے شہر کے درمیان تین دن یا اس سے زائد کی مسافت ہو۔( قدوری مع الجوہرۃ،جلد 1،ص215،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ، بیروت)

   لہذا اگر گھر سے دوسرے مقام تک تو 92کلومیٹر ہے ، لیکن دونوں شہروں کے مابین 92 کلو میٹر نہیں، تو شرعی مسافر نہیں بنے گا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم