امام کا لمبی قراءَت کرنا اور مقتدیوں کا اس پر باتیں کرنا

مجیب:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

تاریخ اجراء:ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2018

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ نماز میں امام کا لمبی قِراءَت کرنا اور مُقتدیوں کا لمبی قراءَت کرنے پر باتیں کرنا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    فرض نمازوں میں قراءَت کے معاملے میں امام کے لئے سنّت یہ ہے کہ اگر مُقیم ہونے کی حالت میں نماز کا وقت تنگ نہ ہو اور جماعت میں بوڑھا، بیمار، ضعیف اور ضروری کام والاکوئی فرد موجود نہ ہو تو فجر اور ظہر کی نماز میں طِوالِ مُفَصَّل ( یعنی سورۂ حُجُرَات سے سورۂ بُرُوج تک)، عصر اور عشاء میں اَوْساطِ مُفَصَّل (یعنی سورۂ بُرُوْج سے لے کر سورہ ٔبَیِّنَہ تک) اور مغرب میں قِصارِ مُفَصَّل( یعنی سورۂ بَیِّنَہ سے سورۂ ناس تک )پڑھے۔

    یا پھر فجر اور ظہر کی دونوں رکعتوں میں فاتحہ کے علاوہ 40 سے 50 آیات تک، عصر اور عشاء میں 15 سے 20 آیات تک اور مغرب میں 10 آیات تک پڑھے۔

    اور اگر نماز میں بوڑھا، ضعیف، بیمار اور ضروری کام والا کوئی فرد موجود ہو تو ان کی رعایت کرتے ہوئے قراءت میں تخفیف(یعنی کمی) کرے۔

    اور اس سے ہَٹ کر امام کاقراءَت کرنا بُرا ا ور خلافِ سنت ہے اور اگر نمازیوں میں کوئی بوڑھا یا مریض یا ضروری کام والا ہے جس پر طویل قراءَت گِراں( یعنی دشوار) گزرتی ہو تو یہ ناجائز و حرام ہے۔

    لہٰذا صورتِ مسئولہ(یعنی پوچھی گئی صورت) میں اگر امام سنت کے مطابق قراءَت کرتا ہے تو مقتدیوں کو امام کے خلاف باتیں کرنے کی اجازت نہیں اور اگر وہ مذکورہ طریقے پر قراءَت نہیں کرتا بلکہ اس سے ہَٹ کر دیگر لمبی سورتیں پڑھتا ہے تو اس صورت میں وہ قصور وار ہے، مقتدیوں کو چاہئےکہ پیارو محبت سے اُسے سمجھائیں نہ یہ کہ اس کے خلاف باتیں کرنا شروع کردیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم