مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1226
تاریخ اجراء: 15جمادی الثانی1445
ھ/29دسمبر2023 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بچوں کو مسجد میں لانے
یا نہ لانے کے حوالے سےشریعت مطہرہ کا یہ حکم ہے کہ ایسے
ناسمجھ بچے جن سے نجاست کا گمان غالب ہو، انہیں مسجد میں لانا مکروہِ
تحریمی یعنی ناجائز و گناہ ہے اور اگر نجاست کا محض
احتمال اور شک ہو تو مکروہِ تنزیہی ہے یعنی گناہ تو
نہیں مگر بچنا بہتر ہے۔نیز ایسا بچہ جو مسجد کے آداب کا خیال
نہیں رکھ سکتا ، مسجد میں اچھل کود کرے گا ، لوگوں کی
نمازیں خراب کرے گا ، اس کو بھی مسجد میں لانے کی اجازت
نہیں ۔ البتہ اگر بچہ ایسا ہے جس کے مسجد میں نجاست
کرنے کا احتمال بھی نہیں اور وہ مسجد کے آداب کا بھی خیال
رکھ سکتا ہے تو ایسے بچوں کو مسجد میں لانا ، جائز ہے ۔
سنن ابن ماجہ میں
حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جنبوا
مساجدکم صبیانکم ومجانینکم وشراءکم وبیعکم وخصوماتکم ورفع
اصواتکم واقامۃ حدودکم وسل سیوفکم واتخذوا علی ابوابھا المطاھر
وجمروھا فی الجمع“یعنی مساجد کو بچوں ،
پاگلوں، خرید و فروخت، جھگڑے، آوازیں بلند کرنے، حدود قائم کرنے، تلواریں
کھینچنے سے بچاؤ اور ان کے دروازوں پر طہارت خانے بناؤ اور جمعہ کے دن مساجد
کو دھونی دیا کرو۔(سننِ ابنِ ماجہ،
حدیث 750، صفحہ 117، مطبوعہ : ریاض)
درِ مختار میں ہے:”یحرم
ادخال صبیان ومجانین حیث غلب تنجیسھم والا فیکرہ“یعنی
بچوں اور پاگلوں کو مسجد میں داخل کرنا حرام ہے جب نجاست کا غالب
گمان ہو ورنہ مکروہ ہے۔
علامہ شامی
رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”والمراد
بالحرمۃ کراھۃ التحریم لظنیۃ الدلیل
۔۔۔۔وعلیہ فقولہ:والا فیکرہ ای تنزیھا“ یعنی
مراد حرمت سے کراہتِ تحریم ہے دلیل کے ظنی ہونے کی وجہ سے
اور اس کے مطابق مصنف کے قول ”ورنہ مکروہ ہے“ یعنی مکروہِ
تنزیہی ہے۔(رد المحتار علی
الدر المختار،جلد 2، صفحہ 518، مطبوعہ :کوئٹہ)
ملفوظاتِ امیر
اہلسنت پر مشتمل رسالے ”مساجد کے آداب “ میں ہے :”عموماً مشاہدہ
یہی ہے کہ جب چھوٹے بچے مسجِدمیں جمع ہوتے ہیں تو
آپس میں شرارتیں شروع کر دیتے ہیں ،
نَمازیوں کے آگے سے گزرتے اور خوب اودھم مچاتے ہیں نیز
دورانِ نماز بسااوقات رونا شروع کر دیتے ہیں جس سے نمازمیں
زبردست خَلَل آتا اور مسجد کا تقدس پامال ہوتا ہے اورکبھی کبھار تو
مسجد میں پیشاب پاخانے تک کر دیتے ہیں تو ان ساری
باتوں کا وبال بچوں کو مسجد میں لانے والے پر آتا ہے جبکہ وہ لانے
والا بالغ ہو لہٰذا چھوٹے بچوں کو ہر گز مسجِد میں نہ لایا جائے
۔
یاد
رکھیے!ایسا بچّہ جس سے نَجاست (یعنی پیشاب
وغیرہ کردینے) کا خطرہ ہو اور پاگل کو مسجِدکے اندرلے جانا حرام ہے اور
اگر نَجاست کا خطرہ نہ ہو تو مَکرُوہ ہے۔اسی طرح بچّے یا پاگل
یا بے ہوش یا جس پر جِنّ آیا ہوا ہو ان سب کو دَم کروانے کے
لیے بھی مسجِدمیں لے
جانے کی شریعت میں اجازت نہیں ۔ اگر کوئی پہلے یہ بھول کرچکا ہے تو اسے چاہیے
کہ فوراً توبہ کر کےآئندہ انہیں نہ لانے کاعَہد کر لے۔ہاں فنائے مسجِد
مثلاً امام صاحب کے حجرے میں انہیں دم کروانے کے لیے لے جانے
میں حرج نہیں جبکہ مسجِد کے اَندر سے گزرنا نہ پڑے۔ “(مساجد
کے آداب ، صفحہ10-12، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟