23 Zilqad Ko Makkah Pahunchne Wala Haji Namaz Mein Qasr Karega ?

23 ذوالقعدہ کو مکہ پہنچنے والا حاجی نماز میں قصر کرے گا؟

مجیب:محمد ساجد  عطاری

مصدق:مفتی فضیل رضا عطاری

فتوی نمبر:Mad-1925

تاریخ اجراء:16شوال المکرم1438ھ/11جولائی2017ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص حج کے لیے  کسی دوسرے ملک سے سفر کرتا ہوا23 ذیقعدہ کو ظہر سے پہلے مکہ مکرمہ پہنچا اور 8 ذو الحجۃ الحرام کو اس کا منیٰ جانے کا ارادہ ہے۔ تو اب مکہ پہنچنے پر وہ نمازیں قصر پڑھے گا یا پوری ؟ کیونکہ اگر ذیقعدہ 30کا ہوا، تو پھر 15 دن بن جائیں گے، ورنہ نہیں  اور حاجی کو مکہ پہنچتے ہی اس کا پتا نہیں لگ سکتا وہ تو کچھ دن بعد ہی چاند کا پتا لگے گا،لہٰذا وہ نمازیں کیسے پڑھے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صورتِ مسئولہ میں یہ  شخص قصر نماز ادا کرے گا،کیونکہ  یہ شخص سفر شرعی کر کے آیا ہے یعنی مسافر ہے اور مسافر جب کسی جگہ پورے پندرہ دن رہنے کی حتمی نیت کرے ،تو اس وقت وہ اس جگہ مقیم ہوتا ہے اور اب اس نے قصر کی بجائے پوری نماز پڑھنی ہوتی ہے، لیکن اگر پندرہ دن رہنے کی نیت حتمی و جزمی نہ ہو، بلکہ اس میں ابہام و تردد ہو، تو ایسی نیت سے مسافر مقیم نہیں بنتا، بلکہ شرعاً  وہ اس کی حالتِ سفر ہی شمار ہوتی ہے اور اس پر قصر کرنا لازمی ہوتا ہے ۔اورحج کے لیے 23 ذیقعدہ کو پہنچنے والے کی نیت بھی پندرہ دن کی حتمی و جزمی نہیں ہوتی، بلکہ نیت میں تردد و استثناء موجود ہوتا ہے کہ اگر چاند انتیس کا ہوگیا تو میں پندرہ دن سے قبل چلا جاؤں گا، لہٰذا جب نیت جزمی نہیں، بلکہ اس میں  تردد ہے، تو ایسا شخص مقیم نہیں بنے گا، بلکہ مسافر ہی رہے گا۔

   حلبہ میں غایہ کے حوالے سے ہے : ”نیۃ الاقامۃ خمسۃ عشر یوما یعتبر عزمہ علی الثبات “ترجمہ: پندرہ دن رہنے کی نیت میں اس کا پختہ عزم ہونا معتبر ہے ۔(حلبہ، جلد2، صفحہ528، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   شرح سیر کبیر للسرخسی میں ہے :”وإن دخل المسلمون أرض الحرب فانتهوا إلى حصن و وطنوا أنفسهم على أن يقيموا عليه شهرا إلا أن يفتحوه قبل ذلك، أخبرهم الوالي بذلك، فإنهم يقصرون الصلاة. لأنهم لم يعزموا على إقامة خمس عشرة ليلة لمكان الاستثناء، فالفتح قبل مضي خمس عشرة ليلة محتمل“ترجمہ: اور اگر مسلمان دار الحرب میں داخل ہوئے اور کسی قلعے کے پاس پہنچ کر یہ نیت کر لی کہ ہم یہاں ایک مہینا رہیں گے، اِلَّا یہ کہ ہم اس سے پہلے فتح حاصل کر لیں ، یہ بات ان کو  لشکر کے والی نے بتائی،  تو تمام افراد قصر نماز ہی ادا کریں گے، کیونکہ ان کا پندرہ راتیں  رہنے کا عزم نہیں، اس لیے کہ درمیان میں استثناء موجود ہے، کیونکہ پندرہ راتوں  سے قبل بھی فتح ہو جانے کا احتمال ہے۔(شرح سیر کبیر، صفحہ245، ناشر: الشرکۃ الشرقیۃ للاعلانات)

   امام ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب میں  اسی مسئلے کی  شر ح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :” ومجرد نية الإقامة لا تتم علة في ثبوت حكم الإقامة كما في المفازة، فكانت البلد من دار  الحرب قبل الفتح في حق أهل العسكر كالمفازة من جهة أنها ليست بموضع إقامة قبل الفتح؛ لأنهم بين أن يهزموا فيقروا أو يهزموا فيفروا، فحالتهم هذه مبطلة عزيمتهم؛ لأنهم مع تلك العزيمة موطنون على أنهم إن هزموا قبل تمام الخمسة عشر وهو أمر مجوز لم يقيموا، وهذا معنى قيام التردد في الإقامة فلم تقطع النية عليها، ولا بد في تحقق حقيقة النية من قطع القصد،...... وعلى هذا قالوا فيمن دخل مصرا  لقضاء حاجة معينة ليس غير ونوى الإقامة خمسة عشر يوما لا يتم، وفي أسير انفلت منهم ووطن على إقامة خمسة عشر في غار ونحوه لم يصر مقيماملتقطا ترجمہ:محض اقامت کی نیت کر لینا اقامت کا حکم ثابت کرنے  کے لیے علت  نہیں، جیسا کہ جنگل میں نیت کر لینے کا معاملہ ہے، لہٰذا فتح حاصل کر لینے سے قبل سپاہیوں کے حق میں   دار الحرب کا یہ شہر  جنگل کی طرح ہی ہے ،اس اعتبار سے کہ فتح سے قبل یہ اقامت کی جگہ نہیں، کیونکہ وہ دومعاملوں کے درمیان ہوتے ہیں کہ اگر انہوں نے (کفار کو ) شکست دے دی تو رُک جائیں گے اور اگر  شکست ہوئی تو یہاں سے  فرار ہو جائیں گے، لہٰذا ان کی حالت ان کے ارادے کو باطل کرنے والی ہے، کیونکہ جب ان کا یہ اراد ہے تو یہ اس طور پر یہاں  رکے ہیں کہ اگر پندرہ دن سے قبل ان کو شکست ہوگئی ، جو  ایک ممکن امر ہے ، تو یہ اقامت نہیں کریں گے ، اور یہی مطلب ہے اقامت میں تردد ہونے کا کہ اقامت کی نیت قطعی و حتمی نہیں ہے جبکہ سچی نیت کے تحقق کے لیے قطعی ارادے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اسی وجہ سے علماء فرماتے ہیں جو شخص کسی شہر میں اپنی مخصوص حاجت کے لیے آیا اور اس کے علاوہ اس کا کوئی مقصد نہیں اور اس نے پندرہ دن رکنے کی نیت کر لی، تو وہ پوری نماز نہیں پڑھے گا ، یونہی قیدی جب کفار سے چھوٹ کر بھاگا اور کسی غار وغیرہ  میں پندرہ دن رکنے کی نیت کر لی، تو وہ مقیم نہیں ہوگا۔(فتح القدیر، جلد2، صفحہ37، دار الفکر، بیروت)

   غنیہ میں اسی مسئلے کے ضمن میں  ہے : ولا بد فی تحقق النیۃ من الجزم“ترجمہ:(اقامت کی) نیت کے تحقق کے لیےجزم ہونا ضروری ہے۔(غنیہ، جلد1، صفحہ465، مکتبہ  کوئٹہ)

   صاحب درمختار نے یہ مسئلہ لکھا کہ” فلو دخل الحاجّ مكة أيّام العشر لَم تصحّ نيّته“یعنی حاجی اگر مکہ میں (ذوالحجۃ) کے دس دنوں میں آیا ،تو اس کی (اقامت والی) نیت درست نہیں۔ تو اس پر امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ  جد الممتار میں لکھتے ہیں :”اما لو دخل لثمان بقين من ذي القعدة أو أكثر ولم ينو الخروج من مكّة للمبيت بموضعٍ آخر غير منى  ومزدلفة  فلا شكّ أنّه يصير مقيماً ويتمّ “ترجمہ: بہر حال اگر کوئی حج کے لیے آنے والا(مکہ میں ) اس وقت داخل ہوا جب ذیقعدہ کے آٹھ دن یا زیادہ دن باقی تھے اور مکہ سے منی و مزدلفہ کے علاوہ کہیں رات گزارنے کے لیے جانے کی نیت بھی نہیں ہے تو شک نہیں یہ شخص مقیم ہو جائے گا اور پوری نماز ادا کرے گا۔(جد الممتار، جلد3، صفحہ565، مکتبۃ المدینہ )

   یہاں امام اہل سنت علیہ  الرحمۃ نے اسی حاجی کو مقیم بیان فرمایا ہے، جو مکہ میں اس وقت داخل ہو جب ذیقعد ہ کے آٹھ یا زیادہ دن باقی ہو ں، اس سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے کہ اس سے کم والا شخص یعنی جو 23 تاریخ یا ا س کے بعد پہنچے گا وہ مقیم نہیں ہوگا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم