2 Shehron Mein Ghar Ho Tu Ek Ghar Se Dosre Ghar Jane Par Namaz Mein Qasr Ka Hukum

دو شہروں میں گھر ہو تو ایک گھر سے دوسرے گھر جانے پر نماز میں قصر کا حکم

مجیب: مولانا محمد ماجد رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1101

تاریخ اجراء: 05ربیع ا لاول1445 ھ/22ستمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ہمارے دو شہروں میں دو گھر ہیں ، دونوں ذاتی ہیں، ایک گھر میں ہم رہتے ہیں اوروالد صاحب کاروبار کی وجہ سے دوسرے شہر کے گھر میں رہتے ہیں ، مہینے کے بعد وہ ہم سے ملنے آتے ہیں  ، تو وہ جب ہم سے ملنے آتے ہیں تو جب تک یہاں رہیں وہ نماز مکمل ادا کریں گے یا قصر کریں گے؟ دونوں شہروں کے درمیان تقریباً 500 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں جس شہر میں  آپ لو گ رہتے ہیں وہ تو آپ کے والد کے لیے وطن اصلی ہے یعنی وہاں آتے ہی پوری نماز پڑھنی ہوگی البتہ وہ شہر کہ جہاں آپ کے والد کاروبار کرتے ہیں اگر ان کاارادہ وہاں مستقل رہنے کا نہیں ہے نہ  وہاں انہوں نے شادی کی تو وہ جگہ وطن اصلی نہیں قرار پائے گی لہٰذا اگر آپ کے والد اس شہر میں پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت کریں گے تو شرعاً مسافر ہوں گے اور قصر کریں گے اور اگر وہاں پندرہ دن رہنے کی نیت ہوتو پھر مکمل نمازپڑھیں گے ۔

    فتاویٰ رضویہ میں ہے :’’جبکہ دوسری جگہ نہ اس کا مولد ہے نہ وہاں ا س نے شادی کی نہ اسے اپنا وطن بنالیا یعنی یہ عزم نہ  کرلیا  کہ اب یہیں رہوں گا اور یہاں کی سکونت  نہ چھوڑوں گا بلکہ  وہاں کا قیام صرف عارضی بر بنائے تعلق  تجارت یا نوکری ہے تو وہ جگہ وطن اصلی نہ ہوئی اگرچہ وہاں بضرورت معلومہ قیام زیادہ اگرچہ وہاں برائے چندے یا تاحاجت اقامت بعض یا کل اہل و عیال  کو بھی لے جائے کہ بہرحال یہ قیام ایک وجہ خاص سےہے نہ مستقل و مستقر توجب وہاں سفر سے آئے گا جب تک  ۱۵دن کی نیت نہ کرے گا قصر ہی پڑھے گا۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد:8، صفحہ :271،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم