2 Mukhtalif Shehron Mein 2 Biwiyan Hon To Shohar Ke Liye Qasar Ka Hukum

 

دومختلف شہروں میں دو بیویاں ہوں، تو شوہر کے لیے نماز میں قصر کرنے کا حکم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD -8884

تاریخ اجراء: 28 شوال المکرم       5144ھ07مئی2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے  میں کہ زید فیصل آباد کا رہائشی ہے۔اس کے والدین، بیوی اور بچے فیصل آباد میں ہیں۔گھربھی اس کا ذاتی ہے۔وہ ملازمت کے لیے ہر ہفتے پانچ دن کے لیے اسلام آباد جاتا ہے۔دو دن کے لیے فیصل آباد آتا ہے۔ اس نے اسلام آباد میں بھی دوسری شادی کر لی ہے۔وہاں اس نے ذاتی گھربھی لے لیا ہے اور دوسری بیوی کو ہمیشہ کے لیے وہیں رکھنے کا ذہن ہے۔اب وہ ایک ہفتہ فیصل آباد اور ایک ہفتہ اسلام آباد رہائش رکھے گا۔اس صورت میں وہ فیصل آباد اور اسلام آباد میں سے کہاں قصر نماز پڑھے گا اور کہاں پوری؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں فیصل آباد  اور اسلام آباد دونوں شہروں میں زید  پوری نماز ادا کرے گا کیونکہ  اگر کسی  آدمی کی دو بیویاں ہوں اور وہ  دونوں  مختلف  شہروں میں رہتی ہوں، تو  شرعی اعتبار سے شوہر کے لیے وہ دونوں  شہر وطن اصلی ہوں گے،لہذا ان میں سے جس جگہ بھی  جائے گا،مقیم  ہی کہلائے گااور پوری نماز پڑھے گا  ۔

   اگرکسی کی  دو بیویاں  دو مختلف شہروں میں  رہتی ہوں، تو شوہر کے لیے  وہ  دو نوں شہر  وطن اصلی ہوں گے ،جیساکہ فقیہ النفس امام قاضی خان اَوْزجندی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 593ھ/1196ء) لکھتے ہیں:”ان تاھل  بھما  کان کل واحد من الموضعین  وطنا اصلیا لہ‘‘ترجمہ: اگر وہ  شادی کرکے )بیویاں( دونوں شہروں  میں رکھے ،تو دونوں جگہوں میں سے ہر ایک جگہ   اس کے لیے وطن اصلی ہو گی۔(فتاوی قاضی خان،جلد1،صفحہ148،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   علامہ خُسْرو رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:885ھ/1480ء)  لکھتے ہیں:’’(قوله فإن اتخذ وطنا اصليا آخر) اي ولم يبق له بالأول اهل إذ لو بقي كان كل منهما وطنا اصليا له ترجمہ :اگر کسی نے دوسری جگہ  کو وطن اصلی بنالیا  کہ پہلی جگہ  پر اس کے اہل   (جیسے بیوی  وغیرہ )      موجود نہ ہو(تو اب پہلی جگہ اس کے لیے وطن اصلی  نہ رہی  )  البتہ اگر  (پہلی جگہ کو وطن اصلی بنایا )اور دوسری جگہ میں  اس کے اہل (جیسے بیوی وغیرہ )موجودہوں،تودونوں جگہوں میں سے ہر ایک اس  کے لیے  وطن اصلی ہوگی ۔(دُررالحکام شرح غرر الاحکام، جلد1، صفحہ135، مطبوعہ داراحیاء الکتب العربیہ )

   شوہر دو شہروں میں سے جس میں بھی داخل ہوگا  ،مقیم کہلائے گا یعنی پوری نماز پڑھے گا ،جیساکہ   علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:’’ لو کان لہ اھل ببلدتین فایتھما دخلھا صار مقیما ‘‘ترجمہ :اگراس کی  اہل (بیویاں) دوشہروں میں  ہوں ،توان میں سے جس شہرمیں بھی جائےگامقیم ہوجائے گا۔(رد المحتار،جلد2،صفحہ739،مطبوعہ کوئٹہ)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’ مسافر نے کہیں شادی کر لی،اگرچہ وہاں پندرہ دن ٹھہرنے کا ارادہ نہ ہو، مقیم ہوگیا اور دو شہروں میں اس کی دو عورتیں رہتی ہوں، تو دونوں جگہ پہنچتے ہی مقیم ہو جائے گا۔‘‘(بھار شریعت ،حصہ 4،صفحہ 751 ،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم