دورانِ نماز قبلہ سے منہ پھیرنے سے نماز کا حکم؟

مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Nor-11390

تاریخ اجراء:21رجب المرجب1442 ھ/06مارچ 2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب"نماز کے احکام"کے صفحہ 195 پر مذکور ہے:”اگر صرف منہ قبلہ سے پھرا تو واجب ہے  کہ فوراً قبلہ کی طرف منہ کرلے اور نماز نہ جائے گی مگر بلا عذر ایسا کرنا مکروہِ تحریمی ہے۔“

    میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ صورتِ مسئولہ میں فقط یہ فعل مکروہِ تحریمی ہے یا پھر نماز بھی مکروہِ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی؟؟ حوالے کے ساتھ رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اولاً تو یہ یاد رہے کہ نمازی کا نماز میں بلا عذر اپنے چہرے کو قبلہ سے پھیردیناشرعاً مذموم اور نماز کے مکروہاتِ تحریمیہ میں سےہے۔

    چنانچہ صحیح بخاری شریف کی حدیثِ پاک میں ہے:”عن عائشة ، قالت : سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الالتفات في الصلاة ؟ فقال : هو اختلاس يختلسه الشيطان من صلاة العبد “یعنی حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں چہرہ پھیرنے کے حوالے سے سوال کیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بندے کی نماز سے ایک حصہ  اچک لینا ہے جسے شیطان اس کی نماز میں سے اُچک لیتا ہے۔“

 (صحیح البخاری، ابواب صفۃالصلاۃ، ج 01، ص 191، مطبوعہ قاھرۃ)

    مذکورہ بالا حدیثِ پاک نقل فرمانے کے بعد علامہ شامی علیہ الرحمۃ  فتاویٰ شامی میں نقل فرماتے ہیں:”وقيده في الغاية بأن:يكون لغير عذر، وينبغي أن تكون تحريمية كما هو ظاهر الأحاديث"بحر"“یعنی "غایہ"میں اسے اس صورت کے  ساتھ مقید کیا ہے کہ جب نمازی کا ایسا کرنا بغیر کسی عذر کے سبب ہو، اور نمازی کا ایسا کرنا  مکروہِ تحریمی ہونا چاہیے جیسا  کہ احادیث  سے ظاہر  ہے"بحر"۔

(ملخصاً از رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ،  ج 02، ص 495-494، مطبوعہ کوئٹہ)

    غنیۃ المستملی میں اس حوالے سےمذکور ہے:”(ولو حول وجھہ)عنھا کان(علیہ)واجباً(ان یستقبل القبلۃ  من ساعتہ و لا تفسد)صلوتہ بذلک التحویل ولکن یکرہ اشد الکراھۃ لما  روی البخاری۔۔۔الخ“یعنی اگر نمازی نے اپنے چہرے کو قبلہ سے پھیر  لیا  تو اب اس پر واجب ہے کہ وہ اسی وقت اپنے چہرے کو قبلہ کی طرف کرلے اور  اس صورت میں اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی، لیکن اس کا (بلا عذر)ایسا کرنا شدید مکروہ ہے، کراہت کی وجہ بخاری شریف کی حدیثِ پاک ہے۔الخ۔

(ملتقطاً از غنیۃ المستملی، الشرط الرابع استقبال القبلۃ،  ص  196، مطبوعہ کوئٹہ)

    صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ نماز کے مکروہاتِ تحریمیہ میں سے 13 نمبر مکروہِ تحریمی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”اِدھر اُدھر مونھ پھیر کر دیکھنا مکروہ تحریمی ہے، کل چہرہ پھر گیا ہو یا بعض۔“

 (بھار شریعت،ج01،ص 626،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    مزید ایک دوسرے مقام پر صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ اس حوالے سے  فرماتے ہیں:”اگر صرف مونھ قبلہ سے پھیرا، تو اس پر واجب ہے کہ فوراً قبلہ کی طرف کرلے اور نماز نہ جائے گی، مگر بلاعذر مکروہ ہے۔“

                                           (بھار شریعت،ج01،ص 491،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    اور  نماز میں اگر کسی مکروہِ تحریمی فعل کا ارتکاب کیا جائے ، تو اس صورت میں نماز واجب الاعادہ ہوتی ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں بھی وہ نماز مکروہِ تحریمی و واجب الاعادہ ہوگی۔ جیسا کہ فتاویٰ شامی  میں ہے:”ذكر في الإمداد بحثا أن كون الإعادة بترك الواجب واجبة لا يمنع أن تكون الإعادة مندوبة بترك سنة اهـ ونحوه في القهستاني، بل قال في فتح القدير: والحق التفصيل بين كون تلك الكراهة كراهة تحريم فتجب الإعادة أو تنزيه فتستحب اهـ۔“یعنی"امداد"میں اس پر بحث موجود ہے کہ نماز کے کسی واجب کو ترک کرنے پراس  نماز کا اعادہ واجب ہونا اس بات سے مانع  نہیں کہ نماز میں کسی سنت کے ترک پر اس نماز کا اعادہ مستحب ہو الخ، اور اسی کی مثل"قہستانی"میں مذکور ہے، بلکہ صاحب"فتح القدیر"نے فرمایا کہ حق یہ ہے کہ اس میں تفصیل ہے کہ وہ کراہت اگر تحریمی ہو تو اس نماز کا اعادہ واجب ہے اور اگر تنزیہی ہو تو اس نماز کا اعادہ مستحب ہے۔‘‘    

(ردالمحتار مع الدر المختار، ج02،  ص 183، مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم