قبلہ سمت سے کتنا پھریں گے تو نماز فاسد ہوگی؟

مجیب:مولانا ابو بکر صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی ہاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Lar-10482

تاریخ اجراء:12رجب المرجب 1442 ھ/25فروری2020ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نماز میں استقبالِ قبلہ شرط ہے،  تو قبلہ سے کتنا انحراف ہوگا ،تو نماز فاسد ہو جائے گی ؟نیز45 ڈگری   کی کچھ وضاحت کر دیجئے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جو شخص  عینِ کعبہ کی سمت خاص تحقیق کر کے عینِ کعبہ کی طرف رخ کر سکتا  ہو،جیسا کہ وہ مکہ میں ایسے مقام پر ہے جہاں سے کعبہ کو دیکھ سکتا ہے  ،تو اس پر فرض  ہوتاہے کہ نماز میں  عینِ کعبہ کی طرف رخ کرے۔ایسا شخص  عینِ کعبہ سے  انحراف کرے گا ،تو اس کی نماز نہیں ہوگی اور جسے یہ تحقیق نا ممکن ہواگرچہ خاص مکۂ معظمہ میں ہو،اس کے ليے جہتِ قبلہ کو رخ کر نےکا حکم ہے اور جہتِ قبلہ،عین ِکعبہ سے دائیں، بائیں 45،45 درجے تک ہے،ایسا شخص عینِ قبلہ سے اتنا انحراف کرے کہ جہت(45 ڈگری) سے باہر ہو، تو نماز فاسد  ہو جائے گی اور45 ڈگری  کے اندر ہو،تو بلاکراہت جائز ہے ،البتہ اُس   شخص کے لیے جہت قبلۂ تحقیقی پر رخ کرنا سنت مستحبہ ہے ۔

    جہتِ قبلہ، عین کعبہ سے 45ڈگری دائیں اور 45ڈگری بائیں طرف ہونے کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ ایک دائرہ میں 360ڈگری ہوتی ہیں اور سمتیں کل چار ہیں ،360ڈگری کو 4پر تقسیم کرنے سے 90حاصل ہوگا،لہذا ایک سمت 90ڈگری پر مشتمل ہوئی ۔تو قبلہ جس طرف ہوگا وہ سمت 90 ڈگری پر مشتمل ہے،عین کعبہ سے دائیں طرف 45درجے تک اوراسی طرح کعبہ  کی بائیں طرف بھی 45درجے تک سمت قبلہ  کہلائے گی۔

    اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ایک مقام پرفرماتے ہیں:’’ہر جہت کا حکم اُس کے دونوں پہلوؤں میں 45، 45 درجے تک رہتا ہے، جس طرح نماز میں استقبالِ قبلہ۔‘‘

 (فتاوی رضویہ، جلد4،صفحہ608، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

     فتاوی رضویہ میں ہے:’’ علمائے کرام کا حکم تو یہ ہے کہ جہت سے بالکل خروج ہو ،تو نماز فاسد اور حدود جہت میں بلاکراہت جائز کہ آفاقی کا قبلہ ہی جہت ہے، نہ کہ اصابت عین ۔بدائع امام ملک العلماء ابوبکر مسعود کاسانی، پھر حلیہ امام ابن امیر الحاج حلبی میں ہے:’’قبلتہ حالۃ البعد جھۃالکعبۃ وھی المحاریب لاعین الکعبۃ‘‘ کعبہ سے دوری کی صورت میں جہتِ کعبہ ہی قبلہ ہے اور وہ محرابِ مسجد ہے، نہ کہ عین قبلہ۔ہاں حتی الوسع اصابت عین سے قرب مستحب۔ اس بارے میں ملتقط و حلیہ وغیرہما کے نصوص بعونہ تعالیٰ آگے آتے ہیں اور خیریہ میں فرمایا: ’’ھوافضل بلاریب ولامین‘‘الخ(وہ بغیر کسی شبہ کے افضل ہے۔)۔۔اور ترک مستحب ،مستلزم کراہت تنزیہ بھی نہیں ،کراہت تحریم تو بڑی چیز  ،بحر الرائق باب العیدین میں ہے:’’  لایلزم من ترک المستحب ثبوت الکراھۃاذلابدلھامن دلیل خاص ‘‘ترکِ مستحب سے کراہت لازم نہیں آتی، کیونکہ اس کے ثبوت کے لیے خاص دلیل کا ہونا ضروری ہے ۔‘‘

(فتاوی رضویہ ،جلد6،صفحہ64،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    فتاوی رضویہ میں  اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن نے فرمایا:’’یہاں امراہم اس کی معرفت ہے کہ دیوار محرابِ مسجد کو قبلہ تحقیقی سے کتنا انحراف ہے؟ اگر وہ انحراف ثمن دور یعنی 45 درجے کے اندر ہے، تو نماز محراب کی جانب بلا تکلف صحیح و درست ہے ، اس انحراف قلیل کا ترک صرف مستحب ہے، خود سوال میں تجنیس ملتقط سے گزرا:’’قال الامام السید ناصر الدین ،الاول للجواز والثانی للاستحباب‘‘  امام ناصر الدین نے کہا : پہلی صورت میں جواز اور دوسری میں استحباب ہے ۔(ت) اسی طرح اُس سے اور نیز ملتقط سے حلیہ امام ابن امیر الحاج میں ہے: شرح زاد الفقیر للعلامۃ الغزی و شرح الخلاصہ للقہستانی۔ پھر ردالمحتار میں وہی دو ثلث جانب راست اور ایک ثلث جانب چپ رکھنا بیان کرکے فرمایا :’’ولولم یفعل ھکذا وصلی فیما بین المغربین یجوز‘‘اگر کسی نے اس طرح نہ کیا اور مغربین کے درمیان نماز پڑھ لی تو جائز ہوگی۔

    جب تک 45 درجے انحراف نہ ہو نماز بلا شبہ جائز ہے اور یہ کہ قبلہ تحقیقی کو منہ کرنا نہ فرض نہ واجب ، صرف سنتِ مستحبہ ہے، لہذا مسجد میں نماز بلا شبہ جائز ہے اور اس میں اصلاً نقصان نہیں ، نہ دیوار سیدھی کرنا فرض، البتہ بہترو افضل ہے۔ ردالمحتار میں  ہے:’’ لو انحرف عن العین انحرافا لا تزول منہ المقابلۃ بالکلیۃ جاز ویؤ یدہ ماقال فی الظھیریۃ اذاتیا من اوتیا سرتجوز ‘‘اگر عینِ کعبہ سے اتنا منحرف ہوا کہ اس سے بالکلیہ مقابلہ ختم نہ ہو تو نماز جائز ہے ،اس کی تائید ظہیریہ کی اس عبارت سے ہوتی ہے کہ جب وہ تھوڑا دائیں یابائیں ہو جائے ،تو نماز جائز ہوگی۔

    حلیہ میں ملتقط سے:’’ ھذا استحباب والاول للجواز اھ یرید ان عدم الانحراف مھما قدرمستحب ،و الانحراف مع عدم الخروج عن الجھۃ بالکلیۃ جائز۔یہ استحباب کے لیے ہے اور پہلا جواز کے لیے ہے ،اھ ۔اس سے مراد یہ ہے کہ کسی قدر بھی انحراف نہ ہو ، یہ مستحب ہے اوراتناانحراف کہ جہت کعبہ سے نہ نکلے یہ بھی جائز ہے۔‘‘

                         (فتاوی رضویہ ،جلد6،صفحہ56تا58،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

    بہار شریعت میں ہے :’’ استقبال قبلہ عام ہے کہ بعینہٖ کعبۂ معظمہ کی طرف مونھ ہو، جیسے مکہ مکرمہ والوں کے ليے یا اس جہت کو مونھ ہو جیسے اوروں کے ليے (درمختار) ۔یعنی تحقیق یہ ہے کہ جو عین کعبہ کی سمت خاص تحقیق کر سکتا ہے، اگرچہ کعبہ آڑ میں ہو، جیسے مکۂ معظمہ کے مکانوں میں جب کہ مثلاً چھت پر چڑھ کر کعبہ کو دیکھ سکتے ہیں، تو عین کعبہ کی طرف مونھ کرنا فرض ہے، جہت کافی نہیں اور جسے یہ تحقیق نا ممکن ہو، اگرچہ خاص مکۂ معظمہ میں ہو،اس کے ليے جہت کعبہ کو مونھ کرناکافی ہے۔ (افاداتِ رضویہ)‘‘

(بھار ،شریعت، جلد1،حصہ3،صفحہ487، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    مزید بہار شریعت میں ہے :’’

    جہت کعبہ کو مونھ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ مونھ کی سطح  کا کوئی جز کعبہ کی سمت میں واقع ہو، تو اگر قبلہ سے کچھ انحراف ہے، مگر مونھ کا کوئی جز کعبہ کے مواجہہ میں ہے، نماز ہو جائے گی، اس کی مقدار 45 درجہ رکھی گئی ہے، تو اگر 45 درجہ سے زائد انحراف ہے، استقبال نہ پایا گیا، نماز نہ ہوئی، مثلاً :ا، ب، ایک خط ہے اس پر ہ، ح، عمود ہے اور فرض کرو کہ کعبۂ معظمہ عین نقطہ ح کے محاذی ہے، دونوں قائمے ا، ہ، ح اور ح، ہ ب کی تنصیف کرتے ہوئے خطوط ہ، ر، ہ، ح خطوط کھینچے، تو یہ زاویہ 45،45 درجے کے ہوئے کہ قائمہ 90 درجے ہے، اب جو شخص مقام ہ پر کھڑا ہے، اگر نقطۂ ح کی طرف مونھ کرے، تو اگرعین کعبہ کو مونھ ہے اور اگر دہنے بائیں ر،یا ح کی طرف جھکے، تو جب تک ر ،ح یا ح، ح کے اندر ہے، جہت کعبہ میں ہے اور جب ر سے بڑھ کر ا ،یا ح سے گزر کر ب کی طرف کچھ بھی قریب ہوگا، تو اب جہت سے نکل گیا، نماز نہ ہوگی۔‘‘

(بھار شریعت، جلد1،حصہ3،صفحہ487، 488مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم