رکوع اور سجدے میں قرآن کی آیت پڑھنے کا حکم؟

مجیب:مفتی علی اصغر صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Nor-11411

تاریخ اجراء:28رجب المرجب 1442ھ/13مارچ2021ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بہارِ شریعت میں سجدۂ سہو کے بیان میں لکھا ہے:”رکوع و سجود و قعدہ میں قرآن پڑھا ، تو سجدہ واجب ہے“لیکن اس میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ کتنی مقدار میں قرآن پڑھنا سجدہ سہو واجب کرتا ہے، میں نے بھی دیگر کتبِ فقہ میں تلاش کیا ،لیکن مقدار کی وضاحت نہیں ملی، اس حوالے سے شرعی رہنمائی فرمادیجیے کہ کتنی مقدار میں قرآن پڑھنے سے سجدۂ سہو واجب ہوگا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    نماز میں قیام کے علاوہ رکوع، سجود ، قومہ اور قعود کسی بھی جگہ قرآن پاک پڑھنا مکروہِ تحریمی و ناجائز ہےاوراس سے بچنا واجب ہے ،لہٰذا اگر کسی شخص نےبھولے سےان مقامات میں سے کسی مقام پر بھی قرآن پاک کی قراءت کی ،تو اس پر سجدۂ سہو واجب ہوگا، اس کی مقدار فقہاء نے ایک آیت بیان فرمائی ہے،جیساکہ  خانیہ ، بحر اور فتاوی رضویہ میں مذکور ہے۔

    یہ مسئلہ بھی ذہن نشین رہے کہ نماز پڑھنے والے نےاگر قعدۂ اخیرہ میں تشہد پڑھنے کے بعد کوئی آیت پڑھی ،تو اس صورت میں سجدۂ سہو واجب نہیں ہوگا۔

    امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”قیام کے سوا  رکوع و سجود و قعود کسی جگہ بسم اﷲ پڑھنا جائز نہیں کہ وہ آیۂ قرآنی ہے اور نماز میں قیام کے سوااورجگہ کوئی آیت پڑھنی ممنوع ہے۔“

 (فتاوی رضویہ،جلد 6،صفحہ350،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ نماز کے مکروہاتِ تحریمہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:”قیام کے علاوہ اورکسی موقع پر قرآنِ مجید پڑھنا(مکروہ تحریمی ہے )۔“

 (بھارِ شریعت ، جلد 1 ، حصہ 3 ، صفحہ 629 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

    مذکورہ مقامات میں سے کسی مقام میں قرآن پڑھا ، تو سجدۂ سہو واجب ہے۔اس کے متعلق حلبی کبیری میں ہے:”لو قرا القرآن فی رکوعہ او فی سجودہ او فی موضع التشھد یجب علیہ سجود السھو“یعنی اگر کسی نے رکوع، سجود یا تشہد کی جگہ قرآن  پڑھا، تو اس پر سجدۂ سہو واجب ہے۔

   (غنیۃ المستملی ، صفحہ431، مطبوعہ کراچی)

    امام شیخ زین الدین بن ابراہیم الشہیر بابن نجیم مصری حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”لو قرا آیۃ فی الرکوع او السجود  او القومۃ فعلیہ السھو“یعنی اگر کسی نے رکوع، سجود یا قومہ میں کوئی آیت پڑھی ،تو اس پر سجدۂ سہو لازم ہے۔

(بحر الرائق ، جلد 2 ، صفحہ 172 ، مطبوعہ کوئٹہ)

    فتاوی خانیہ میں ہے:’’لو قرا  الفاتحۃ او آیۃ من القرآن فی القعدۃ او فی الرکوع او فی السجود کان علیہ السھو“یعنی اگر کسی نے قعدہ، رکوع یا سجدہ میں سورۂ فاتحہ یا قرآن کی کوئی آیت  پڑھی۔تو اس پر سجدہ سہو لازم ہے۔

(فتاوی خانیہ ملتقطا،جلد1،صفحہ114،مطبوعہ بیروت)

    سجدۂ سہو واجب ہونے کی علت بیان کرتے ہوئےامام شیخ ابراہیم حلبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”للقراۃ فیمالم یشرع فیہ والتحرز عن ذلک واجب“یعنی (سجدۂ سہو واجب ہے)کیونکہ قراءت اس جگہ پائی گئی ،جہاں قراءت کرنا، جائز نہیں ہے اور اس سے بچنا واجب ہے۔

(حلبی کبیری ، صفحہ431، مطبوعہ کراچی)

    مجمع الانہر میں ہے:”لان کلا منھا لیس بمحل القراءۃ فیکون فعل من افعال الصلاۃ  غیر واقع فی محلہ ،فیجب“یعنی ان مقامات میں سے کوئی مقام بھی محلِ قراءت نہیں ، تو افعالِ نماز میں سے ایک فعل اپنے محل میں واقع نہیں ہوا ، لہٰذا سجدۂ سہو واجب ہوگا۔

(مجمع الانھر ، جلد 1 ، صفحہ 220 ، مطبوعہ  بیروت)

    سجدۂ سہو ایک آیت کے پڑھنے سے بھی واجب ہوجائے گا۔اس کے متعلق علامہ شمس الدین محمد بن محمد المعروف بابن امیر حاج رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’مقدار مایجب للسھو بقراء تہ من القرآن فظاھر الذخیرۃ والخانیۃ: الآیۃ فصاعدا“یعنی جتنی قراء ت کے ساتھ سجدہ سہو واجب ہوتا ہے اس کی مقدار میں ذخیرہ اور خانیہ کی عبارت کا ظاہر یہ ہے کہ وہ ایک آیت ہے۔

(حلبۃ المجلی شرح منیۃ المصلی،جلد2،صفحہ444،مطبوعہ بیروت)

    قعدۂ اخیرہ میں تشہد کے بعد قراءت کرنے کی صورت میں سجدۂ سہو واجب نہیں۔اس کے متعلق حاشیۃ الشلبی میں ہے:”لو قرا القرآن فی القعدۃ انما یجب السھو اذا لم یفرغ من التشھد ، اما اذا فرغ ،فلا یجب“یعنی قعدہ میں قراءت کرنے کی صورت میں سجدۂ سہو اس وقت واجب ہوگا ،جب وہ تشہد سے فارغ نہ ہوا ہو۔ہاں اگر تشہد سے فارغ ہوگیا (پھر قراءت کی)،تو اب سجدۂ سہو واجب نہیں ہوگا۔

(حاشیۃ الشلبی  علی التبیین ، جلد 1 ، صفحہ 193 ، مطبوعہ ملتان)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم