کیا مغرب کی دو سنتیں صلوٰۃ الاوابین میں شامل ہیں؟

مجیب:مولانا شفیق صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-7239

تاریخ اجراء:04شعبان المعظم 1442ھ/18مارچ2021

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مغرب کی نماز کے بعد2 سنتیں اور 4نفل پڑھنے سے صلوٰۃ الاوابین والا مستحب ادا ہوجائے گایا2دو سنتوں کے بعد الگ سے 6نفل پڑھنے ہوں گے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    مغرب کے فرضوں کے بعد کی دوسنت اور چار نفل کے مجموعہ کا نام ہی صلوٰۃ الاوابین ہے،لہذااگر کسی نے مغرب کی نماز کے بعد 2سنتیں اور 4نفل پڑھے، تو اس کا صلوٰۃ الاوابین والا مستحب ادا ہوجائے گا۔

صلوٰۃ الاوابین کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان عالیشان ہے:”من صلى بعد المغرب ست ركعات لم يتكلم فيما بينهن بسوء عدلن له بعبادة ثنتي عشرة سنة “ترجمہ: جوشخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے جن کے درمیان کوئی بری بات نہ کرے تو یہ اُس کے حق میں بارہ برس کی عبادت کے برابر کی جائیں گی۔

(سنن الترمذی،باب ما جاء في فضل التطوع وست ركعات بعد المغرب،جلد1،صفحہ209،مطبوعہ لاھور)

    حضرت علامہ علی بن سلطان المعروف ملاعلی قاری رحمۃاللہ علیہ اس حدیث  کے تحت فرماتے ہیں:” المفهوم أن الركعتين الراتبتين داخلتان في الست“ ترجمہ:حدیث مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ مغرب کے بعد دو سنت مؤکدہ  بھی اوابین  کی چھ رکعتوں میں شامل ہیں۔

(مرقاۃالمفاتیح،کتاب الصلوٰۃ،باب السنن وفضائلھا،جلد3،صفحہ226،مطبوعہ کوئٹہ)

    حکیم الامت مفتی احمدیارخان علیہ الرحمۃ اس حدیث کے تحت رقمطرازہیں:” اس نماز کا نام صلوٰۃ اوابین ہے، جیسا کہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے۔بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ چھ رکعتیں مغرب کی سنتوں و نفلوں کے ساتھ ہیں،بعض کہتے ہیں کہ ان کے علاوہ۔مرقاۃ نے پہلی صورت کو ترجیح دی“

(مرأۃالمناجیح،جلد2،صفحہ226،نعیمی کتب خانہ،گجرات)

    اوابین کے بارے میں تنویرالابصار مع درمختار میں ہے:”( ست بعد المغرب)لیکتب من الأوابین(بتسلیمۃ)او ثنتین او ثلاث وهل تحسب المؤكدة من المستحب ويؤدي الكل بتسليمة واحدة؟ اختار الكمال: نعم“ترجمہ: مغرب کے بعد چھ رکعتیں مستحب ہیں،تاکہ اوابین (اللہ تعالیٰ  کی طرف رجوع کرنے والوں)میں سے لکھا جائے،خواہ ایک سلام سے یا دو سے یا تین سلام سے پڑھے۔کیا سنت موکدہ کو صلوۃ الاوابین سے شمار کیا جائے گا اور سب کو ایک سلام کے ساتھ پڑھاجا سکتا ہےیا نہیں؟علامہ کمال ابن ہمام نے اسی کواختیار کیا ہے (یعنی سنت موکدہ کو اوابین میں سے شمار کریں گے اور چھ رکعتوں کو ایک سلام کے ساتھ پڑھاجاسکتاہے۔)

(تنویر الابصار مع درمختار،جلد2،صفحہ547،مطبوعہ  کوئٹہ)

    یونہی بحرالرائق میں ہے:” حكى في فتح القدير اختلافا بين أهل عصره في مسألتين۔ الأولى هل السنة المؤكدة محسوبة من المستحب في الأربع بعد الظهر وبعد العشاء وفي الست بعد المغرب أو لا ۔الثانية على تقدير الأول هل يؤدي الكل بتسليمة واحدة أو بتسليمتين واختار الأول فيهما “ترجمہ:فتح القدیر میں اس زمانے کے علماء کے درمیان دو مسئلوں میں اختلاف حکایت کیا گیا ہے، پہلا مسئلہ یہ ہے کہ (ظہر و عشا اور مغرب کے بعد والی دو رکعت)سنت موکدہ کو(احادیث میں بیان کردہ فضیلت والی رکعات یعنی) ظہر کے بعد والی 4،عشاء کے بعد والی 4اور مغرب کے بعد والی 6مستحب رکعتوں میں شمار کیاجائے گایا نہیں؟دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر سنت موکدہ کو مستحب رکعات میں شمار کیا جائے گاتو کیا سب کو ایک سلام کے ساتھ پڑھا جاسکتا ہے یا نہیں؟صاحب فتح القدیر نے دونوں مسئلوں میں پہلی صورت (سنت موکدہ کو مستحب رکعات میں شمار کیا جائے گااور ان کو ایک سلام کے ساتھ پڑھاجاسکتا ہے اس صورت)کو اختیار کیا ہے۔

(البحرالرائق ،جلد2،صفحہ54،مطبوعہ کوئٹہ)

    سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں :’’(نماز ِمغرب کے) فرض پڑھ کر چھ رکعتیں ایک ہی نیت سے،ہر دو رکعت پر  التحیات و دُرود و  دُعا اور پہلی ،تیسری،پانچویں’’سبحانک اللھم‘‘ سے شروع کرے،ان میں پہلی دو سنت مؤکدہ ہوں گی، باقی چار نفل،یہ صلوٰۃ ِاوابین ہے اور اللہ اوابین (اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں) کے لیے  غفور( بخشش فرمانے والا  ) ہے۔‘‘

(الوظیفۃ الکریمہ ،صفحہ28،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

    بہار شریعت میں ہے:’’بعد مغرب چھ رکعتیں مستحب ہیں ان کو صلوٰۃ الاوابین کہتے ہیں ،خواہ ایک سلام سے سب پڑھے یا دو سے یا تین سلام سے یعنی ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا افضل ہے۔ظہر و مغرب و عشاء کے بعد جو مستحب ہے اس میں سنت موکدہ داخل ہے ،مثلاًظہر کے بعد چار پڑھیں تو موکدہ و مستحب دونوں ادا ہوگئیں اور یوں بھی ہو سکتا ہے کہ موکدہ و مستحب دونوں کو ایک سلام کے ساتھ ادا کرے یعنی چار رکعت پر سلام پھیرے۔‘‘

(بھار شریعت، جلد1،صفحہ،666،667، مکتبۃالمدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم