صفیں سیدھی رکھنے اور اقامت کے بعد صفیں درست کرنے کا اعلان کرنے کا حکم؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Pin-6687

تاریخ اجراء:15رجب المرجب1442ھ28فروری2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس بارےمیں  کہ

     (1)صف میں کندھے سے کندھا مَس یعنی ملا ہوا ہونا واجب ، سنت یا مستحب کیا ہے؟

     (2)جب اقامت کہی جائے، تو اس کے بعد امام کا صفیں درست کروانے کے لیے یہ اعلان کرنا کیسا ہے کہ اپنی ایڑیاں گردنیں اور کندھے  ایک سیدھ میں کر کے صفیں سیدھی کر لیں اور کندھے سے کندھا مَس یعنی ٹچ کیا ہوا رکھنا واجب ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں اقامت ہو جانے  کے بعد ایسے اعلان نہیں کرسکتے۔کیا یہ  درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     (1)صفوں میں کندھے سے کندھا ملا کر رکھنا  یعنی آپس میں ایسے مل کرکھڑا ہونا  واجب ہے کہ درمیان میں بالکل بھی فاصلہ نہ ہو، کیونکہ شریعتِ مطہرہ میں نمازکی صفوں کے حوالے سے تین چیزوں کی بہت زیادہ تاکید ہے۔(۱)تسویہ:یعنی نماز کی صفیں بالکل سیدھی ہوں اس طرح  کہ مقتدی آگے پیچھے نہ ہوں،سب کی گردنیں، شانے(کندھے)اور ٹخنےایک سیدھ میں ہوں ۔(۲)اتمام:یعنی جب تک اگلی صف مکمل  نہ ہو جائے، اُس وقت تک دوسری صف شروع نہ کی جائے ۔(۳)تراصّ:یعنی نمازی ایک دوسرے کے ساتھ خوب مل کر کھڑے ہوں،اس طرح کہ ایک کا کندھا  دوسرے کے کندھے کے ساتھ  ملا ہو،ان میں بالکل بھی فاصلہ نہ ہو۔یہ تینوں چیزیں واجب ہیں ، بلاعذرِ شرعی ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑنا،ناجائز اورگناہ ہے۔البتہ صفوں کے واجبات میں سے کوئی واجب چھوٹ جائے،تو اس کی وجہ سے نماز کا اعادہ  واجب نہیں ہوگا۔

    نماز میں صفوں کے مذکورہ واجبات کے چند دلائل  درج ذیل ہیں:

    حضوراکرم  صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے  تسویۂ صفوف کے متعلق ارشاد فرمایا:’’سووا صفوفکم ‘‘ترجمہ:اپنی صفیں سیدھی کرو۔

(صحیح مسلم،ج1،ص182 ،مطبوعہ کراچی )

    حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےاتمامِ صفوف کے متعلق ارشاد فرمایا:”اتموا الصف المقدم ثم الذی يليه فما كان من نقص فليكن في الصف المؤخر“ترجمہ:آگے والی صف کو مکمل کروپھر اس کے بعد والی کو،پس جو کمی ہو ،وہ آخری صف میں ہو۔

(مسند احمد بن حنبل،ج21،ص114 ،مؤسسۃ الرسالہ ، بیروت)

    ایک اور حدیث میں تراص یعنی خوب مل کر کھڑا ہونے کا حکم دیتے ہوئے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”الا تصفون خلفی کما تصف الملائکۃ عند ربھم ؟قالو! وکیف تصف الملائکۃ عند ربھم؟ قال:یتمون الصفوف المقدمۃ ویتراصون فی الصف‘‘ترجمہ:تم میرے پیچھے اس طرح صف کیوں نہیں بناتے،جس طرح فرشتے اپنے رب کے حضور  صف بناتے ہیں؟صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا:فرشتے اپنے رب کے حضور  کیسے صف بناتے ہیں؟ارشاد فرمایا:وہ اگلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں اور صف میں خوب مل کر کھڑے ہوتے ہیں۔

(سنن ابی داؤد،ج1،ص106،  مطبوعہ لاھور)

    امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن  صف کے واجبات کو بیان کرتے ہوئے  ارشاد فرماتے ہیں:’’دربارۂ صفوف شرعاً تین باتیں بتاکیدِاکیدماموربہ ہیں اور تینوں آج کل معاذاﷲ کالمتروک ہورہی ہیں، یہی باعث ہے کہ مسلمانوں میں نااتفاقی پھیلی ہوئی ہے۔اول تسویہ کہ صف برابر ہو،خم نہ ہو، کج نہ ہو،مقتدی آگے پیچھے نہ ہوں،سب کی گردنیں، شانے، ٹخنے آپس میں محاذی ایک خط مستقیم پرواقع ہوں جو اس خط پرکہ ہمارے سینوں سے نکل کر قبلہ معظمہ پر گزراہے، عمود ہو،دوم : اتمام کہ جب تک ایک صف پوری نہ ہو، دوسری نہ کریں، اس کا شرع مطہرہ کو وہ اہتمام ہے کہ اگرکوئی صف ناقص چھوڑے ،مثلاً ایک آدمی کی جگہ اس میں کہیں باقی تھی، اسے بغیر پوراکیے پیچھے اور صفیں باندھ لیں، بعد کو ایک شخص آیا ،اس نے اگلی صف میں نقصان پایا، تو اسے حکم ہے کہ ان صفوں کو چیرتاہوا جاکروہاں کھڑا ہو اور اس نقصان کو پوراکرے،کہ انہوں نے مخالفتِ حکم شرع کرکے خود اپنی حرمت ساقط کی۔ جو اس طرح صف پوری کرے گا ،اﷲ تعالی اس کے لیے مغفرت فرمائے گا۔سوم:   تراص یعنی خوب مل کر کھڑاہونا کہ شانہ سے شانہ چھلے۔اﷲعزوجل فرماتاہے:﴿صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرْصُوۡصٌ﴾ترجمہ:گویا وہ عمارت ہے رانگاپلائی ہوئی۔رانگ پگھلا کر ڈال دیں،تو سب درزیں بھرجاتی ہیں،کہیں رخنہ فرجہ نہیں رہتا، ایسی صف باندھنے والوں کو مولی سبحٰنہ وتعالی دوست رکھتاہے۔۔یہ بھی اسی اتمام صفوف کے متممات سے اور تینوں امرشرعاً واجب ہیں’’ کماحققناہ فی فتاوٰنا وکثیر من الناس عنہ غافلون‘‘ ترجمہ:جیسا کہ ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی  تحقیق کردی ہے اور بہت سے لوگ اس سے غافل ہیں۔‘‘

(فتاوی رضویہ،ج7،ص219تا223،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    صفوں کے واجبات میں سے کوئی واجب چھوٹ جائے،تو اس کی وجہ سے نماز کا اعادہ  واجب نہیں ہوگا۔چنانچہ جب حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ  عنہ  مدینہ طیبہ تشریف لائے،تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے ہمارے اندر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے خلاف کون سی بات دیکھی ہے؟تو آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:’’ما انکرت شیئا  الا انکم لا تقیمون الصفوف‘‘ترجمہ:میں نے ایسی کوئی چیز نہیں  دیکھی،سوائے اس  بات کے کہ تم صفوں کو سیدھا نہیں کرتے۔

 (صحیح بخاری،ج1،ص100، مطبوعہ کراچی)

    اس حدیث  مبارک کے تحت علامہ بدر الدین  عینی الحنفی  علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:’’ ومع القول بوجوب التسوية فتركها لا يضر صلاته لانها خارجة عن حقيقة الصلاة الا ترى ان انسا(رضی اللہ عنہ) مع انكاره عليهم لم يامرهم باعادة الصلاة‘‘ترجمہ:اور صف سیدھی رکھنے کے وجوب والے قول کے مطابق بھی اس کا ترک نماز میں نقصان پیدا نہیں کرے گا،کیونکہ یہ نماز کی حقیقت سے خارج ہے ،کیا دیکھتے نہیں کہ حضرت سیدنا انس رضی اللہ  عنہ نے ان کے اس فعل کو ناپسند کرنے کے باوجود انہیں نماز کے اعادے کا حکم نہیں دیا۔

(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری،ج4،ص359، مطبوعہ ملتان)

     (2)جب اقامت  کہی جائے، تو اس کے بعد امام کا مقتدیوں کو صفیں  درست کرنے کی تلقین کرنایا مخصوص اعلان کرنا کہ جس میں صفوں  کے واجبات کی طرف نمازیوں کوتوجہ دلائی جائے،یہ   بالکل جائز ہے، بلکہ متعدد احادیث طیّبہ سے  ثبوت ملتا ہے کہ حضوراکرم  صلی اللہ علیہ والہ وسلم اقامت ہو جانے کے بعد صفیں درست   کرواتے تھے ۔ نیز خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین  کا بھی یہی معمول  تھا۔

    حضرت سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ  ارشاد فرماتے ہیں:کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یسوی صفوفنا  حتی کانما یسوی بھا القداح حتی رای انا قد عقلنا عنہ ثم خرج یوما فقام حتی کاد یکبر فرای رجلا بادیا صدرہ من الصف فقال عباد اللہ  لتستون صفوفکم لیخالفن اللہ بین وجوھکمترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم ہماری صفیں اتنی سیدھی کرواتے  تھے  کہ گویا ان کے ذریعے تیروں کو سیدھا کرتے ہوں حتی کہ  حضور  صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دیکھا کہ ہم یہ بات سمجھ گئے ہیں ۔ پھر ایک دن حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم (نماز کے لیے)تشریف لائے اور قریب تھا کہ نماز کے لیے تکبیرتحریمہ  کہتے کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی نظر مبارک ایک ایسے شخص پر پڑی جو صف سے اپنے سینے کو باہر نکالے ہوئے تھا، تو نبی پاک  صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمایا :اے  اللہ کے بندو! تم ضرور اپنی صفوں کو درست کر لوگے یا اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان  اختلاف (بغض و عداوت) پیدا کر دے گا۔              

(صحیح مسلم، ج1، ص182، مطبوعہ کراچی)

    حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:اقیمت الصلاۃ فاقبل علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  بوجھہ قال: اقیموا صفوفکم و تراصوا  فانی اراکم من وراء ظھریترجمہ:نماز کے لیے اقامت کہی گئی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے رُخ  انور سے ہماری طرف متوجہ ہوئے  اور فرمایا : تم اپنی صفوں کو سیدھا کرو  اور مل کر کھڑے ہو ۔بلاشبہ میں تمہیں پسِ پشت بھی دیکھتا ہوں۔

(صحیح بخاری، ج1، ص100، مطبوعہ کراچی)

    علامہ عینی علیہ الرحمۃ  اس حدیث  مبارک کے تحت فرماتے ہیں:”مما یستفاد منہ جواز الکلام بین الاقامۃ و بین الصلاۃ و وجوب تسویۃ الصفوف وفیہ معجزۃ النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم “ترجمہ:اس حدیث پاک سے یہ مسائل مستفاد (حاصل) ہوتے ہیں کہ اقامت اور نماز کے درمیان کلام کرنا، جائز ہے اور صفیں سیدھی رکھنا واجب ہے اور اس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے (ایک)معجزے کا ثبوت ہے۔

 (عمدۃ القاری، ج4، ص355، مطبوعہ ملتان)

    خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین  کا بھی یہی معمول  تھا۔چنانچہ امام ترمذی علیہ الرحمۃ نقل فرماتے ہیں:”روی عن عمر انہ کان یوکل رجلا باقامۃ الصفوف و لا یکبر حتی یخبر ان الصفوف قد استوت و روی عن علی و عثمان انھما کانا یتعاھدان ذلک و یقولان : استووا و کان علی یقول تقدم یا فلان  تاخر یا فلان“ترجمہ:حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ  ایک  شخص  کو نماز کی صفیں سیدھی کرنے کے لیے مقرر فرماتے اور اُس وقت تک نماز کی تکبیر نہ کہتے  جب تک کہ وہ خبر نہ دے دیتا کہ صفیں سیدھی ہو چکی ہیں  اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ و سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہما  سے منقول ہے کہ وہ صفیں سیدھے کروانے کا خاص خیال رکھتے تھے اور فرماتے تھے  کہ صفیں سیدھی کر لو اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے  تھے : اے فلاں ! آگے ہو جاؤ۔ اے فلاں ! پیچھے ہو جاؤ۔

(جامع ترمذی، ج1، ص53،  مطبوعہ کراچی)

    فقیہِ اعظم مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ رحمۃ اللہ القوی ان احادیث مبارکہ اور ان جیسی دیگر روایات کے پیشِ نظرارشاد فرماتے ہیں: ” ان سب احادیث سے معلوم ہوا کہ اقامت کے بعد بھی اگر صفیں درست نہ ہوں، تو جب تک صفیں درست نہ ہوں ، تکبیرِ تحریمہ میں تاخیر ہو سکتی ہے اور یہی حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور خلفائے راشدین کا معمول تھا۔“            

(نزھۃ القاری، ج2، ص372، فرید بک سٹال، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم