بدبودار جرابیں پہن کر مسجد میں جانا کیسا؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Pin-6677

تاریخ اجراء:21رجب المرجب 1441ھ17مارچ 2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل سردی سے بچنے کے لیے بہت سے لوگ جرابیں استعمال کرتے ہیں۔جرابوں کے ساتھ اگر زیادہ دیر تک بوٹ پہنے جائیں،تو بعض لوگوں کے پاؤں سے عجیب سی بدبو آنا شروع ہو جاتی ہے۔اب مسئلہ یہ ہے کہ کچھ افراد بوٹ اتار کر اسی طرح بدبو والی جرابیں لے کر مسجد میں نماز پڑھنے آجاتے ہیں،جس کی وجہ سے مسجد میں بھی عجیب سی بدبو پھیل جاتی ہے،تو ایسے افراد کا بدبو والی جرابیں پہن کر مسجد میں آنا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    مسجداللہ پاک کا بابرکت اور پُرعظمت گھر ہے، اس کی تعظیم اور اس کے آداب کا خیال رکھنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ مسجد کو پاک وصاف رکھیں اور ایسا کوئی بھی کا م نہ کریں ،جو مسجد کی تعظیم اور اس کے آداب کے خلاف ہو۔

    اورجہاں تک سوال کا تعلق ہے،تو یاد رہے کہ مسجد میں بدبو والے پاؤں،جرابیں یاان کے علاوہ کوئی بھی ایسی چیز لے کر جانا،جس سے مسجد میں بدبوپھیلے،ناجائز اور گناہ ہے۔حدیثِ پاک میں اس سے منع کیا گیا ہے ،کیونکہ یہ مسجد کی تعظیم اوراس کے آداب کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ انسانوں اور فرشتوں کی ایذا کا باعث بھی ہے۔لہذاجرابوں کے ساتھ زیادہ دیرتک  بوٹ پہننے کی وجہ سے اگر پاؤں سے  بدبوآنا شروع ہوجائے،تو ایسے افراد کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ جرابیں اتار کر اچھے طریقے سے پاؤں دھو کر مسجد میں داخل ہوں ،نیز بدبو والے بوٹ اور جرابیں بھی حفاظت کے انتظام کے ساتھ ایسی جگہ پر رکھیں کہ جہاں سے مسجد میں بدبو نہ آئے۔

    مسجد کو پاک و صاف رکھنے کے حوالے سے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿وَعَہِدْنَاۤ اِلٰۤی اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ اَنۡ طَہِّرَا بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَالْعٰکِفِیۡنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ﴾ترجمہ کنز العرفان:’’اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل کو تاکید فرمائی کہ میرا گھر طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے خوب پاک  صاف رکھو۔ ‘‘(پارہ1،سورۃ  البقرہ،آیت125)

    اس آیت کے تحت تفسیرِ صراط الجنان میں ہے:’’اس سے معلوم ہوا کہ خانہ کعبہ اور مسجد حرام شریف کو حاجیوں،عمرہ کرنے والوں، طواف کرنے والوں،اعتکاف کرنے والوں اور نمازیوں کےلیے پاک و صاف رکھا جائے۔ یہی حکم مسجدوں کو پاک و صاف رکھنے کا ہے، وہاں گندگی اور بدبو دار چیز نہ لائی جائے۔ یہ سنت انبیاء(علیہم السلام )ہے۔(تفسیرِ صراط الجنان تحت ھذہ الاٰیہ،جلد1،صفحہ 205،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

    اورحضرتِ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک حدیث میں ہے:’’امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ببناء المساجد فی الدور وان تنظف وتطیب‘‘ ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے محلوں میں مسجدیں بنانے اور انہیں پاک صاف اور معطر رکھنے کا حکم ارشاد فرمایا۔(سنن ابی داؤد ، کتاب الصلوٰۃ،باب اتخاذ المساجد فی الدور،جلد1،صفحہ78،مطبوعہ لاھور)

    مسجد کو بدبو سے بچانے کے متعلق سنن نسائی میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من  اكل من هذه الشجرة،قال اول يوم:الثوم، ثم قال:الثوم والبصل والكراث فلا يقربنا في مساجدنا،فان الملائكة تتاذى مما يتاذى منه الانس‘‘ترجمہ:جو اس درخت سے کھائے(پہلے دن آپ نےلہسن کا فرمایا،پھرلہسن ،پیاز اورگندنایعنی لہسن کےمشابہ ایک بو والی سبزی کا فرمایا)،تووہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے ،کیونکہ انسان جس چیز سے تکلیف محسوس کرتے ہیں، فرشتے بھی اس سے تکلیف محسوس کرتے ہیں ۔(سنن نسائی،کتاب المساجد،باب من یمنع من المسجد،جلد1،صفحہ116،مطبوعہ لاھور)

    ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’قلت:العلة اذى الملائكة واذى المسلمين ويلحق بما نص عليه في الحديث كل ما له رائحة كريهة من الماكولات وغيرها، وانما خص الثوم هنا بالذكر، وفي غيره ايضا بالبصل والكراث لكثرة اكلهم بها‘‘ترجمہ:میں کہتا ہوں کہ اس ممانعت کی علت ملائکہ اور مسلمانوں کوایذا دینا ہے۔۔اورحدیث میں جن چیزوں پر صراحت کی گئی ہے،ان کے ساتھ کھانے والی اور نہ کھانے والی ہر اس چیز کو لاحق کیا جائے گا،جوبدبودار ہواور یہاں خاص طور پر لہسن اور دیگر احادیث میں پیاز اور گندناکو بھی ذکر کیا گیا ہے،کیونکہ ان چیزوں کو کثرت سے کھایا جاتاہے(ورنہ ممانعت ہر بدبو والی چیزکے ساتھ خاص ہے ۔)(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ، باب ما جاء فی الثوم النیئ،جلد4،صفحہ633،مطبوعہ  ملتان)

    اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے مسجد کے قریب استنجاء خانے بنانے کے متعلق سوال ہو ا،تواس کے جواب میں  ارشاد فرمایا:’’مسجد کوبو سے بچانا واجب ہے، ولہذا مسجد میں مٹی کا تیل جلانا حرام، مسجد میں دیا سلائی سلگانا حرام، حتی کہ حدیث میں ارشاد ہوا:’’وان یمرفیہ بلحم نیئ‘‘یعنی مسجد میں کچا گوشت لے جانا ، جائز نہیں،حالانکہ کچے گوشت کی بوبہت خفیف ہے، تو جہاں سے مسجد میں بو پہنچے وہاں تک ممانعت کی جائے گی۔یہ خیال نہ کرو کہ اگر مسجد خالی ہے، تو اس میں کسی بو کا داخل کرنا اس وقت جائز ہو کہ کوئی آدمی نہیں جواس سے ایذا پائے گا، ایسا نہیں، بلکہ ملائکہ بھی ایذا پاتے ہیں، اس سے جس سے ایذاپاتا ہے انسان۔مسجد کو نجاست سے بچانا فرض ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد16،صفحہ232تا233، رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم