دوران خطبہ جمعہ کی سنتیں پڑھنا کیسا؟

مجیب:مولانا شاکر مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-6805

تاریخ اجراء:12صفرالمظفر1441ھ12اکتوبر2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  کیاخطبے کے دوران جمعہ کی سنتیں پڑھ سکتے ہیں؟اگردورانِ خطبہ شروع کردیں توکیاحکم ہے؟اوراگرخطبہ سے پہلے شروع کر دیں،  توخطبہ شروع ہونے پرکیاحکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    دورانِ خطبہ جمعہ کی سنتیں پڑھنامکروہ تحریمی،ناجائزوگناہ ہے،اگردورانِ خطبہ سنتیں شروع کرلیں،توتوڑناواجب اورغیرمکروہ وقت میں اس کی قضاکرناواجب اوراگرمکمل کرلی،توسنتیں اداہوجائیں گی،مگرگنہگارہوگااوراگرخطبہ سے پہلے شروع کرلیں تھیں،تواب درمیان میں قطع نہ کرے،بلکہ چاررکعتیں مکمل پڑھے۔

    چنانچہ دورانِ خطبہ سنتیں پڑھنے کے مکروہ تحریمی ہونے کے بارے میں مصنف ابنِ ابی شیبہ میں ہے:عن ابن  عباس  و ابن   عمر     أنھماکانایکرھان الصلاة والکلام یوم الجمعة بعدخروج الامامترجمہ:حضرت ابن عباس اورحضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت ہے کہ یہ دونوں امام کے اپنے حجرے سے خطبہ کے لیے نکلنے کے بعدنمازپڑھنے کومکروہ قراردیتے تھے۔

 (مصنف ابن ابی شیبہ، جلد01،صفحہ458،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)

    اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوال کیاگیاکہ’’ جس حالت میں امام خطبہ پڑھتاہو،اس وقت کوئی وظیفہ یاسنن یانوافل پڑھناچاہیے یانہیں؟‘‘توآپ نے جواباارشادفرمایا:’’اس وقت وظیفہ مطلقاناجائزہےاورنوافل بھی اگرپڑھے گاگنہگارہوگا،اگرچہ نمازہوجائے گی۔‘‘

(فتاوی رضویہ،جلد08،صفحہ352،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

    دورانِ خطبہ شروع کی گئی سنتوں کوتوڑنے کےواجب اورغیرمکروہ وقت میں قضاکے واجب ہونے کے بارے میں ردالمحتارمیں ہے:أن صلاة النفل صحیحة مکروھة حتی یجب قضاؤھااذاقطعہ،ویجب قطعہ وقضاؤہ فی غیروقت مکروہ فی ظاھرالروایة،ولوأتمہ خرج عن عھدة مالزمہ بالشروعترجمہ:(دورانِ خطبہ)نفل نمازمکروہ اداہوگی حتی کہ جب اسے توڑدے گا،تواس کی قضاواجب ہوگی اوراسے توڑنااوراس کی غیرمکروہ وقت میں قضاکرناواجب ہے،ظاہرالروایہ کے مطابق اوراگراس نے مکمل کرلی ،تووہ اس کی ذمہ داری سے نکل جائے گا،جوشروع کرنے سے اسے لازم ہوئی تھی۔

 (ردالمحتار مع الدرالمختار ،کتاب الصلاة،باب الجمعة،جلد03،صفحہ38،مطبوعہ کوئٹہ)

    خطبہ سے پہلے شروع کی جانے والی سنتوں کومکمل کرنے کے بارے میں بحرالرائق اورمجمع الانہرمیں ہے:واللفظ لبحرالرائق:اذاشرع فی الأربع قبل الجمعة ثم افتتح الخطبة أوالأربع قبل الظھرثم أقیمت ھل یقطع علی رأس الرکعتین؟تکلموافیہ والصحیح أنہ یتم ولایقطع لأنھابمنزلة صلاة واحدةواجبةترجمہ:جب کسی نے جمعہ سے قبل چاررکعت سنت شروع کردی،پھرامام صاحب  نے خطبہ شروع کیایاچاررکعت سنت ظہرقبلِ جماعت شروع کردی ،پھراقامت کہی گئی، توکیاان چاررکعتوں کودورکعتوں پرقطع کرے گا؟اس کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں اورصحیح یہ ہے کہ وہ چاررکعت مکمل کرے اوردورکعت پرقطع نہ کرے،کیونکہ یہ ایک پوری واجب نماز کی طرح ہے ۔     

(بحرالرائق،کتاب الصلاة ،جلد02،صفحہ271،مطبوعہ کوئٹہ)

    فتاوی رضویہ میں ہے:”مصلی ایں دوسنت ہرچہاررکعت اتمام کنداگرچہ ہنوزتحریمہ بسة است کہ جماعت ظہریاخطبہ جمعہ آغازنہادندزیراکہ ایں ہمہ رکعات ہمچونمازواحدست لہذادرقعدہ اولی درودنخواندنہ درشروع ثالثہ ثناوتعوذ۔(ترجمہ:ان دونوں سنتوں (قبل ازظہروجمعہ)کی چارچاررکعات پوری کرلے،اگرچہ خطبہ جمعہ یاظہرکی جماعت کھڑی ہوجائے،کیونکہ یہ تمام نمازواحدکی طرح ہیں، یہی وجہ ہے کہ پہلے قعدہ میں دروداورتیسری رکعت میں ثنااورتعوذنہیں پڑھاجاتا۔ )“

(فتاوی رضویہ،جلد08،صفحہ132، رضافاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم