مقتدی نے تاخیر سے التحیات مکمل کی اور امام کےساتھ رکوع میں ملا،تو نماز کاحکم؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Aqs-1983

تاریخ اجراء:20جُمادَی الاُخری1442ھ/03فروری2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ امام صاحب التحیات مکمل کر کے تیسری رکعت کے قیام میں کھڑے ہو گئے اور تین تسبیح(یعنی تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے) کی مقدار رُک کر رکوع میں چلے گئے ، ایک مقتدی نے التحیات مکمل نہیں کی تھی ، وہ التحیات مکمل کر کے امام صاحب کے رکوع میں جانے کے بعد کھڑا ہوا اور ایک تسبیح(یعنی ایک مرتبہ سبحان اللہ کہنے) کی مقدار رُک کر رکوع میں امام صاحب سے ملا ، کیا اس کی نماز ہو گئی ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں جب مقتدی نے اپنا التحیات کا واجب پورا کیا اور اس کے بعد قیام کا رُکن ادا کر کے امام سےرکوع میں ملا ، تو اس کی نماز ہو گئی ۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ نماز میں امام کی پیروی واجب ہے، لیکن اگر امام کی پیروی کی وجہ سے کوئی واجب چھوٹتا ہو ، تو مقتدی کو حکم ہے کہ پہلے اس واجب کو مکمل کرے ، پھر امام کی پیروی کرے ، یہاں تک کہ اگر اس واجب کو پورا کرنے کے دوران امام مزید اگلے رکن میں پہنچ جائے اور مقتدی اس کے بعد اپنا واجب پورا کر کے اگلا رکن ادا کر کے امام سےملے ، تب بھی حکمِ شریعت پر عمل کرنے کی وجہ سے اس کی نماز ہو جائے گی ۔

    مقتدی کا تشہد رہتا ہو اور امام تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے ، تو مقتدی کو حکم ہے کہ پہلے تشہد مکمل کرے ، پھر امام کی پیروی کرے ، خواہ ایسا کرنے کے دوران امام تیسری رکعت بھی پڑھ لے۔چنانچہ تنویر الابصار و در مختار میں ہے : ”(لو رفع الامام رأسہ) من الرکوع او السجود (قبل ان یتم الماموم التسبیحات) الثلث (وجب متابعتہ ، بخلاف سلامہ) او قیامہ لثالثۃ (قبل تمام المؤتم التشھد) فانہ لایتابعہ بل یتمہ لوجوبہ “ ترجمہ : اگرامام نے مقتدی کے رکوع یا سجدے کی تین تسبیحات مکمل کرنے سے پہلے سر اٹھا لیا ، تو مقتدی پر امام کی پیروی لازم ہے ، البتہ اگر مقتدی کے تشہد مکمل کرنے سے پہلے امام سلام پھیر دے یا تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے ، تو مقتدی اس کی پیروی نہیں کرے گا ،بلکہ تشہد واجب  ہونے کی وجہ سے اسے مکمل کرے گا ۔

    رد المحتار میں ہے : ”قولہ (فانہ لایتابعہ الخ) ای و لو خاف ان تفوتہ الرکعۃ الثالثۃ مع الامام کما صرح بہ فی الظھیریۃ “ ترجمہ : شارح رحمۃ اللہ علیہ کا قول (تو مقتدی اس کی پیروی نہیں کرے گا) یعنی اگرچہ اسے یہ خوف ہو کہ وہ امام کے ساتھ تیسری رکعت میں نہیں مل سکے گا ، جیسا کہ ظہیریہ میں اس مسئلے کو واضح لکھا ہے ۔

 (رد المحتار علی الدر المختار ، جلد 2 ، صفحہ244 ، مطبوعہ کوئٹہ)

    امام کے رکوع یا سجدے سے فارغ ہونے کے بعد مقتدی کےرکوع یا سجدہ کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”تحقیقِ مقام یہ ہے کہ متابعتِ امام جو مقتدی پرفرض میں فرض ہے ، تین صورتوں کو شامل : دوسرے یہ کہ اُس کا فعل ، فعلِ امام کے بعد بدیر واقع ہو ، اگرچہ بعد فراغِ امام ، فرض یوں بھی ادا ہوجائے گا ۔ پھر یہ فصل بضرورت ہوا ، تو کچھ حرج نہیں ۔ ضرورت کی یہ صورت کہ مثلاً: مقتدی قعدۂ اُولیٰ میں آ کر ملا ، اس کے شریک ہوتے ہی امام کھڑا ہو گیا ، اب اسے چاہئے کہ التحیات پوری پڑھ کر کھڑا ہو اور کوشش کرے کہ جلد جا ملے ، فرض کیجئے کہ اتنی دیر میں امام رکوع میں آ گیا ، تو اس کا قیام، قیامِ امام کے بعدِ اختتام (یعنی امام کا قیام ختم ہونے کے بعد) واقع ہو گا ، مگر حرج نہیں کہ یہ تاخیر بضرورتِ شرعیہ تھی ۔ ملخصا “

(فتاوٰی رضویہ ، جلد7 ، صفحہ274،275 ،  رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم