نماز میں سورہ مُلک کے بعد اللہ رب العٰلمین پڑھ لیا ، تو نماز کا حکم ؟

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

فتوی نمبر: Nor-11201

تاریخ اجراء:01جُمادی الاُولیٰ1442ھ/26دسمبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص نمازمیں سورہ ٔ ملک کی قراءت  کرےاور سورت ختم کرنے کےبعد بھولے سے (اللہ رب العٰلمین )بھی پڑھ لے،توکیا اس کی نماز ٹوٹ جائےگی ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں سورہ ٔ ملک کی  قراءت کے بعد’’اللہ رب العٰلمین‘‘ کہنےسےنماز فاسد نہیں ہوگی ،کیونکہ  نمازمیں اللہ پا ک کا ذکر بطور جواب نہ ہو، تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی ۔ذکر اللہ کے بطور جواب ہونےسے مراد یہ ہےکہ نمازی نمازمیں  کسی شخص سےمخاطب  ہوکربطور جواب اللہ کا ذکر کرے،مثلا :کوئی چھینک مارے ،تو بطور جواب ’’ یرحمک اللہ ‘‘کہے،یا بُر ی خبر سن کر ’’ انا للہ وانا الیہ رٰجعون ‘‘پڑھے اور اگر خطاب کے بغیر خود ہی ذکراللہ کرے ،تو یہ ذکر مفسدِ نما ز نہیں ۔ جیسے کوئی  نماز میں چھینکنے کے بعد خود ہی’’ الحمدللہ‘‘یا’’یرحمک اللہ‘‘ کہے۔نیزپوچھی گئی صورت میں سجدہ سہوبھی واجب نہیں ہوگا،کیونکہ’’اللہ رب العٰلمین ‘‘کہنےسےرکوع یا کسی اور رکن کی ادائیگی میں تین بار’’سبحان اللہ‘‘ کہنےکی مقدارتاخیرنہیں ہوئی ۔

علامہ شامی علیہ الرحمۃ نے دوران نماز ذکر اللہ کرنے کےمتعلق ردالمحتار میں فرمایا:” لولم یقصد الجواب بل قصد الثناء والتعظیم لا تفسد لان نفس تعظیم اللہ تعالی والصلاۃ علی نبیہ لاینافی الصلاۃ “یعنی اگر اس نے ( ذکر اللہ یا درود پاک سے) جواب کا ارادہ نہ کیا،  بلکہ ثناء و تعظیم کا ارادہ کیا،تونماز  فاسد نہیں ہو گی ،کیونکہ فی نفسہ اللہ پاک کی تعظیم اور نبی پاک علیہ الصلوٰۃ و السلام پر درود پاک پڑھنا  نمازکے منافی  نہیں ہے۔

 (ردالمحتار مع الدرالمختار ،جلد 2،صفحہ460،مطبوعہ کوئٹہ )

    فتاویٰ قاضی خان میں   ہے:”المصلی اذااخبر بخبر یسرہ فقال الحمدللہ اواخبر بأمر عجیب فقال سبحان اللہ اوبخبر یھولہ فقال لا الہ الااللہ اوقال اللہ اکبر ان لم یرد بہ الجواب لم تفسد صلاتہ فی قولھم جمیعا“ یعنی  نمازی کو اچھی خبر د ی گئی،تو اس نے ’’الحمدللہ‘‘ کہا یا تعجب والی خبر سن کر ’’سبحان اللہ‘‘  کہا  یا دہشت والی  خبر سنی، تواس  نے ’’لا الہ الااللہ ‘‘یا’’ اللہ اکبر‘‘ کہا ،تو اگر اس نے جواب کا ارادہ نہیں کیا ،تو تمام ائمہ کے قول کے مطابق اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی ۔                                 

(فتاویٰ قاضی خان ،جلد1،صفحہ126،مطبوعہ کراچی )

     درر الحکام شرح غررالاحکام میں ہے:”ولو قال العاطس أو السامع الحمد لله لا تفسد،لأنه ليس جوابا عرفا ، ولو قال العاطس لنفسه يرحمك اللہ  لا تفسد،لأنه بمنزلة قوله يرحمني اللہ وبه لا تفسد كذا في الظهيرية “یعنی اگر چھینک مارنے والے یا سننے والے نے ’’الحمد للہ‘‘ کہا ،تو نماز فاسد نہیں ہوگی،کیونکہ عرف میں اسے جواب  نہیں کہاجاتااور اگر خود چھینکنے والے نے ’’ يرحمك الله‘‘ کہا  توبھی نماز فاسد نہیں ہوگی،کیونکہ یہ  اس کےقول :’’اے اللہ تو مجھ پر رحم فرما ‘‘کے قائم مقام ہےاور یہ کہنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی،اسی طرح ظہیریہ میں ہے ۔

   (دررالحکام ،جلد1،صفحہ102،مطبوعہ  کراچی )

    ذکراللہ بطورخطاب نہ ہو،تواس سے نماز فاسد نہیں ہوتی،چنانچہ رد المحتار اوربحرالرائق میں ہے:”واللفظ للآخر:لو قال العاطس لنفسه يرحمك اللہ يا نفسي لا تفسد لأنه لما لم يكن خطابا لغيره لم يعتبر من كلام الناس كما إذا قال يرحمني اللہ وقيد بقوله يرحمك اللہ لأنه لو قال العاطس أو السامع الحمد لله لا تفسد لأنه لم يتعارف جوابا وإن قصده“یعنی  اگر نماز میں  چھینک مارنے والے نے’’یرحمک اللہ یانفسی‘‘ یعنی اے نفس ! اللہ تجھ پر رحم کرے، کہا،تونماز فاسد نہیں ہوگی، کیونکہ جب نمازی نے دوسرے کو مخاطب نہیں کیا، تو اس کے الفاظ لوگوں کے کلام میں سے  شمار نہیں ہوں گے ،گویا ا س نے کہا ہے”اے اللہ مجھ پر رحم فرما۔“(مصنف نےنماز فاسد ہونے والی صورت کوکسی کی چھینک کے جواب میں)’’یرحمک اللہ ‘‘کہنے کے ساتھ مقید کیا،کیونکہ اگر چھینکنے والایا چھینک سننے والا ’’الحمد للہ‘‘ کہےتو ان کی  نماز فاسد نہیں ہوتی ،کیونکہ اس کا  جواب ہو نا متعارف نہیں، اگرچہ وہ اس کا ارادہ کرے ۔

                                               (البحر الرائق ،جلد2،صفحہ8،مطبوعہ کوئٹہ )

    مزید بحر الرائق میں چند صفحات بعد  ذکر اللہ کے چند الفاظ کے مفسد نماز  ہونے کے متعلق بیان کرنے کے بعد فرمایا:” وأراد بهذا الألفاظ الخطاب لأنه لا يشكل على أحد أنه متكلم لا قارئ“یعنی ان الفاظ سے (نماز اس صورت  میں فاسد ہو گی کہ جب) وہ خطاب کا ارادہ کرے کیونکہ اس صورت میں کسی کو شک نہیں رہے گا کہ یہ بات کرنے والا ہے، نہ کہ ذکر  کرنے والا ۔ 

( البحر الرائق ،جلد2،صفحہ11،مطبوعہ کوئٹہ )

    فتاوی نوریہ  میں ہے :”اگر قرآن کریم کے کلمات یا کلمہ طیبہ یا تسبیح کسی کے جواب میں کہے،تو مصرح کہ ہمارے امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک نماز فاسد ہوجاتی ہے ،جبکہ بغرض جواب کہے ،ہاں نیتِ جواب نہ ہو ،تو پھر ان اذکارسے نماز قطعا فاسد نہیں ہوتی ۔“

                  (فتاوی نوریہ ،جلد1،صفحہ398،مطبوعہ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ  )

    اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ نےفتاوی رضویہ میں تین بار’’سبحان اللہ‘‘ کہنے کی مقدار تاخیرکرنے کا حکم بیان کرتےہوئے فرمایا:”اگر ایک بار بھی بقدرادائے رکن مع سنت یعنی تین بار’’سبحان اللہ‘‘ کہنے کی مقدار تک تامل کیا، سجدہ سہو واجب ہوا،ردالمحتار میں ہے:’’التفکرالموجب للسھو مالزم منہ تاخیرالواجب اوالرکن عن محلہ بان قطع الاشتغال بالرکن اوالواجب قدر اداء رکن وھو الاصحترجمہ:ہر وہ تفکر ( سوچنا سجدہ )سہوکا موجب ہے جو  واجب یا رکن کو اپنے مقام سے مؤخر کردے ،مثلاً: ادائے رکن کی مقدار کسی رکن یا واجب سے اعراض ہو، یہی اصح ہے۔“

                 (فتاوی رضویہ، جلد8، صفحہ178، مطبوعہ رضافاؤنڈیشن ،لاھور)

     کسی رکن میں تین بار’’سبحان اللہ‘‘ کہنے کی مقدار تاخیرہونے سے متعلق بہار شریعت میں ہے :”قراءت وغیرہ کسی موقع پر سوچنے لگا کہ بقدر ایک رکن یعنی تین بار ’’سبحان اللہ‘‘ کہنے کے وقفہ ہو ا ، سجدہ سہو واجب ہے ۔“

(بھار شریعت ،جلد1،صفحہ715،مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم