نمازِ عصر کے بعد سجدۂِ شکر اور سجدۂِ تلاوت کرنے کا حکم ؟

مجیب:مفتی فضیل صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Har-4102

تاریخ اجراء:02جمادی الثانی1441ھ/28جنوری2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نماز عصر کے بعد سجدہ شکروسجدہ تلاوت ادا کرسکتے ہیں یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    نماز عصر کے بعد سجدہ شکر کرنا مطلقا مکروہ تحریمی،ناجائز و گناہ ہے،جبکہ سجدہ تلاوت غروب آفتاب(آخری بیس منٹ)کے علاوہ پورے وقت میں کر سکتے ہیں،بلا کراہت جائز ہے،البتہ غروب آفتاب(آخری بیس منٹ)میں یہ تفصیل ہے کہ اگر آیت سجدہ اسی بیس منٹ میں پڑھی تو اس وقت میں بھی سجدہ کرنا ، جائز ہے ،لیکن افضل یہ ہےکہ  کسی غیر ِمکروہ وقت میں سجدہ  کرے،اور اگر آیتِ سجدہ غروب آفتاب(آخری بیس منٹ) کے علاوہ کسی اور غیر مکروہ وقت میں پڑھی تو اس کا سجدہ اب اس مکروہ وقت میں  کرنا مکروہ تحریمی،ناجائز و گناہ ہے۔

    تنویر الابصار و درمختار میں ہے:" وکرہ نفل بعد صلاۃ فجر وصلاۃ عصر لا یکرہ قضاء فائتۃ وسجدۃ تلاوۃ ملخصا " ترجمہ : نفل نماز فجر اور نماز عصر کے بعد مکروہ ہےاور فوت شدہ نمازوں کی قضا کرنا اور سجدہ تلاوت کرنا مکروہ نہیں، نماز فجر اور نماز عصر کے بعد۔

 (تنویر الابصار ودر مختار مع رد المحتار ،ج 02،ص 44تا45، مطبوعہ کوئٹہ)

    علامہ ابن عابدین شامی رحمۃاللہ علیہ(وکرہ نفل)کےتحت فرماتے ہیں:"والکراھۃ ھنا تحریمیۃ ایضا کما صرح بہ فی "الحلیۃ"،ولذا عبر فی "الخانیۃ" و"الخلاصۃ" بعدم الجواز ،والمراد عدم الحل لا عدم الصحۃ کما لایخفی" ترجمہ : اور کراہت یہاں بھی تحریمی ہے جیساکہ اس کی حلیہ میں صراحت کی ہے اوراسی وجہ سے خانیہ میں اور خلاصہ میں عدم جواز کے ساتھ تعبیر کیا ہے اور مراد عدم حل ہے نہ کہ عدم صحت جیساکہ مخفی نہیں۔

 (رد المحتار ،ج 02،ص 44، مطبوعہ کوئٹہ)

    علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ قنیہ کے حوالہ سے سجدہ شکر کے متعلق  فرماتے ہیں: "یکرہ ان یسجد شکرا بعد الصلاۃ فی الوقت الذی یکرہ فیہ النفل ولایکرہ فی غیرہ اھ۔"نماز کے بعد سجدہ شکر کرنا مکروہ ہے اس وقت میں جس میں نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے اس کے علاوہ میں مکروہ نہیں۔

                    (رد المحتار ،ج 02،ص 38، مطبوعہ کوئٹہ)

    سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃا لرحمن سے سوال ہواکہ نماز عصر اور فجر کے بعد سجدہ کرنا ، جائز ہے یا نہیں؟ اس کے جواب میں ارشاد  فرمایا:"جائز ہے مگر جب عصر میں وقت کراہت آجائے تو قضا بھی جائز نہیں اور سجدہ مکروہ اگر چہ سہو یا تلاوت کا ہو اورسجدہ شکر تو بعد نماز فجر وعصر مطلقاََ مکروہ ۔"

 (فتاوی رضویہ،ج05،ص330،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

    سجدہ تلاوت کے متعلق کنز الدقائق میں ہے:" ومنع عن سجدۃ التلاوۃ عند الطلوع والاستواء والغروب ملخصا" ترجمہ : سجدہ تلاوت سے منع کیا گیا ہے سورج کے طلوع ہونے کے وقت اور استواء کے وقت اور غروب کے وقت۔

(کنزالدقائق ،ص22،مطبوعہ مکتبہ ضیائیہ،راولپنڈی)

    اس کے تحت تبیین الحقائق میں ہے:"والمراد بسجدۃ التلاوۃ ما تلاھا قبل ھذہ الاوقات،لانھا وجبت کاملۃ فلا تتادی بالناقص واما اذا تلا ھا فیھا جاز اداؤھا  فیھا من غیر کراھۃ،لکن الافضل تاخیرھا لیؤدیھا فی الوقت  المستحب" ترجمہ : اور سجدہ تلاوت سے مراد یہ ہے کہ جس کو ان مکروہ اوقات سے پہلے پڑھا ہوتو سجدہ تلاوت منع ہے ،کیونکہ سجدہ تلاوت کامل طور پر واجب ہوا ہے تو ناقص طور پر ادا نہیں ہوسکتااور بہرحال جب آیت سجدہ  ان اوقات میں پڑھی تو اس کاسجدہ ان اوقات میں کرنا بلا کراہت جائز ہے،لیکن افضل سجدہ تلاوت کو مؤخر کرنا ہے تاکہ وقت مستحب میں اس کو ادا کیا جائے۔

 (تبیین الحقائق،ج1،ص229،مطبوعہ لاھور)

    صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:"ان اوقات میں آیت سجدہ پڑھی تو بہتر یہ ہے کہ سجدہ میں تاخیر کرے،یہاں تک کہ وقت کراہت جاتا رہے اور اگر وقت مکروہ ہی میں کرلیا تو بھی جائز ہے اور اگر وقت غیر مکروہ میں پڑھی تھی تو وقت مکروہ میں سجدہ کرنا مکروہ تحریمی ہے ۔"

       (بھار شریعت،ج 1،ص454،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

    اوقات مکروہہ کے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:" ثلاث ساعات لاتجوز فیھا المکتوبۃ ولا صلاۃ الجنازۃ ولا سجدۃ التلاوۃ اذا طلعت الشمس حتی ترتفع وعند الانتصاف الی ان تزول وعند احمرارھا الی ان تغیب الا عصر یومہ ذلک فانہ یجوز اداؤہ عند الغروب ھکذا فی فتاوی قاضیخان" ترجمہ : تین وقت ایسے ہیں جن میں فرض پڑھنا جائز نہیں ہےاور نہ ہی نماز جنازہ اور نہ ہی سجدہ تلاوت کرنا ، جائز ہے۔ جب  سورج طلوع ہو یہاں تک کہ بلند ہوجائےاور نصف النہار کے وقت سے زوال کے وقت تک اور سورج کے سرخ ہونے کے وقت سے غائب ہونے کے وقت تک،مگر اس دن کی عصر کہ اس کو غروب کے وقت ادا کرنا ، جائز ہے ۔اسی طرح فتاویٰ قاضی خان میں ہے۔

 (فتاوی عالمگیری،ج1،ص52،مطبوعہ کوئٹہ)

    صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:"طلوع وغروب ونصف النہار ان تینوں وقتوں میں کوئی نماز جائز نہیں ،البتہ اس روز اگر عصر کی نماز نہیں پڑھی تو اگر چہ آفتاب ڈوبتا ہو پڑھ لے،طلوع سے مراد آفتاب کا کنارہ ظاہر ہونے سے اس وقت تک ہے کہ اس پر نگاہ خیرہ ہونے لگے جس کی مقدار کنارہ چمکنے سے 20 منٹ ہےاور اس وقت سے کہ آفتاب پر نگاہ ٹھہرنے لگے ڈوبنے تک غروب ہے،یہ وقت بھی 20 منٹ ہے،نصف النہار سے مراد نصف النہار شرعی سے نصف النہار حقیقی یعنی آفتاب ڈھلکنے تک ہے جس کو ضحوہ کبری کہتے ہیں یعنی طلوع فجر سے غروب آفتاب تک آج جو وقت ہے،اس کے برابر ، برابر دو حصے کریں،پہلے حصہ کے ختم پر ابتدائے نصف النہار شرعی ہے اور اس وقت سے آفتاب ڈھلنے تک وقت استواوممانعت ہر نماز ہے۔ملخصا"

(بھار شریعت،ج 1،ص454،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

    سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فر ماتے ہیں:"مشرق ومغرب دونوں جانب میں یہ وقت برابرہے،تجربہ سے یہ وقت تقریبا بیس منٹ ثابت ہوا ہے تو جب سے آفتاب کی کرن چمکے اس وقت سے بیس منٹ گزرنے تک نماز ناجائز اور وقت کراہت ہوا اور ادھر جب غروب کو بیس منٹ رہیں وقت کراہت آجائے گااورآج کی عصر کے سوا ہر نماز منع ہوجائے گی۔ملخصاََ"

(فتاوی رضویہ،ج05،ص138،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم