نماز میں آہ،اوہ کے حروف نکلنے سے نماز کا حکم

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Aqs:1943

تاریخ اجراء:16ربیع الثانی1442ھ/02دسمبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

       کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بہارِ شریعت میں ہے کہ ’’ نماز کی حالت میں درد کی وجہ سے آہ ، اوہ کے الفاظ زبان سے نکلے ، تو نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر مریض کی زبان سے نکلے ، تو نماز فاسد نہیں ہوگی ‘‘ اس کی وضاحت فرما دیجیے کہ مریض کی زبان سے بھی تو درد کی وجہ سے ہی یہ الفاظ نکلتے ہیں ، تو پھر مریض کے الفاظ کی وجہ سے نماز فاسد کیوں نہیں ہوتی اور درد کی وجہ سے نکلنے والے الفاظ سے کیوں فاسد ہوجاتی ہے ؟

سائل : محمد جہانگیر (صدر ،  کراچی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

       سوال میں بہارِ شریعت کے حوالے سے جو مسئلہ ذکر کیا گیا ہے ، وہ مطلق نہیں ہے ، بلکہ اس کی یہ تفصیل ہے کہ حالتِ نماز میں آہ ، اوہ کے الفاظ نکلنے سے نماز فاسد ہونے کا مدارمن وجہ شدتِ تکلیف اور حقیقتاً اِس چیز پر ہے کہ نمازی ان الفاظ کو روک سکتا ہے یا نہیں روک سکتا ؟ اگر ان کو روک سکتا ہے ، تو اگرچہ وہ مریض ہو ، یہ الفاظ کہنے سے نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر روک نہیں سکتا ، تو اگرچہ مریض کے علاوہ شخص کی زبان سے درد کی وجہ سے یہ الفاظ نکلیں ،نماز فاسد نہیں ہوگی ۔

       جب یہ الفاظ روکنے پر قدرت نہ ہو ، تو مریض کی طرح  درد والے کی نماز بھی فاسد نہیں ہوگی ۔ چنانچہ اس کے محلِ فساد  کو بیان کرتے ہوئے بحر الرائق اور حاشیۃ الطحطاوی میں فرمایا : و اللفظ للآخر ’’ ومحل الفساد به عند حصول الحروف إذا أمكنه الإمتناع عنه أما إذا لم يمكنه الامتناع عنه فلا تفسد به عند الكل كما في الظهيرية كالمريض إذا لم يمكنه منع نفسه عن الأنين والتأوه لأنه حينئذ كالعطاس والجشاء إذا حصل بهما حروف ‘‘ ترجمہ : ( آہ ، اوہ کے ) حروف نکلنے سے اس وقت نماز فاسد ہوگی کہ جب ان کو روکنا ممکن ہو ، بہر حال جب روکنا ممکن نہیں ، تو بالاتفاق اس (درد والےشخص ) کی نماز فاسد نہیں ہوگی ، اس مریض کی طرح کہ جو آہ ، اوہ کے الفاظ روکنے پر قادر نہیں ہوتا ، کیونکہ مریض اس وقت چھینکنے والے اور ڈکار لینے والے کی طرح ہوتا ہے ، جس چھینک اور ڈکار سے حروف پیدا ہوتے ہوں ۔

(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ، کتاب الصلوٰۃ ، باب مایفسد الصلوٰۃ ، جلد 1 ، صفحہ 440 ، مکتبہ غوثیہ ، کراچی )

       مریض کی نماز بھی اس وقت فاسد نہیں ہوگی کہ جب درد ناقابلِ برداشت ہو ، چنانچہ محیطِ برہانی میں ہے : ’’ وسئل محمد بن سلمة عن ذلك فقال: لا تقطع الصلاة وعلّل فقال: لأن هذا ما يبتلي به المريض إذا اشتدّ عليه المرض لا يمكنه الامتناع عنه ‘‘ ترجمہ : محمد بن سلمہ رحمۃ اللہ علیہ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا ، تو فرمایا : نماز نہیں ٹوٹے گی اور علت بیان کرتے ہوئے فرمایا : نماز اس وقت نہیں ٹوٹے گی کہ جب مریض کا مرض ، جس میں وہ مبتلا ہے،اتنی شدت کا ہوکہ اس کو روکنا ممکن نہ ہو ۔

( المحیط البرھانی ، کتاب الصلوٰۃ ، باب مایفسد الصلوٰۃ ، جلد 2 ، صٖفحہ 152 ، مطبوعہ ادارۃ القرآن و العلوم الاسلامیہ ، کراچی )

       اسی وجہ سے بہارِ شریعت میں بھی مریض کے ساتھ بے اختیار کی قید ہے کہ مریض کی تکلیف اتنی شدت کی ہو کہ ان الفاظ کو روکنا اس کے اختیار میں نہ ہو اور بے اختیار یہ الفاظ نکل جائیں ، تو ایسی صورت میں نماز فاسد نہیں ہوگی ۔ چنانچہ بہارِ شریعت میں ہے : ’’ مریض کی زبان سے بے اختیار آہ ،اوہ نکلی نماز فاسد نہ ہوئی، یوہیں چھینک،کھانسی، جماہی، ڈکار میں جتنے حروف مجبوراً نکلتے ہیں، معاف ہیں۔ ‘‘

( بھارِ شریعت  ، جلد 1 ،حصہ3 ، صفحہ 608 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم