تہجد کےلیے عشاء کی نماز کے بعد سونا ضروری ہے؟

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Aqs:1946

تاریخ اجراء:20ربیع الثانی1442ھ/06دسمبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

       کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص رات میں عشا ءپڑھے بغیرسو جائے ، پھر اٹھ کر عشاء و تہجد ایک ساتھ پڑھ لے ، تو کیا تہجد ہو جائے گی ؟ یا تہجد کی نماز کے لیے عشاءکے بعد سونا ضروری ہے ؟

سائل:ارشاد مدنی(سولجر بازار،کراچی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

       تہجد کی نماز کے لیےعشاء کے بعد سونا شرط ہے ،کیونکہ تہجد اس نفل نماز کا نام ہے ، جو رات میں نمازِ عشاء کے بعد نیند سے اٹھ کر پڑھی جائے ۔ البتہ عشاء کی نماز کے بعد اور سونے سے پہلے جو نوافل پڑھے جائیں ، وہ رات کی نماز میں شامل ہوں گے،جنہیں شریعت میں صلاۃ اللیل کہا جاتا ہے ۔

       قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے :(وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ)ترجمۂ کنز الایمان : ”اور رات کے کچھ حصہ میں تہجد کرو ، یہ خاص تمہارے لیے زیادہ ہے  ۔ “

       اس آیت کی تفسیر میں حضرت علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ”تہجّد نماز کے لیے نیند کو چھوڑنے یا بعدِ عشا سونے کے بعد جو نماز پڑھی جائے ، اس کو کہتے ہیں ۔“

(تفسیر خزائن العرفان ، پارہ 15 ، سورۃ بنی اسرآئیل ، آیت79)

       حدیثِ پاک میں حُضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عشاء پڑھ کر آرام فرمانے ، پھر تہجد ادا کرنے کا ذکر موجود ہے ۔ چنانچہ مشکوٰۃ المصابیح میں رسولِ پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عمل شریف سے متعلق حدیث ہے : ” لما صلی صلاۃ العشاء و ھی العَتَمۃ اضطجع ھویا من اللیل ، ثم استیقظ فنظر فی الافق فقال : (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا) حتی بلغ الی : (اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ) ، ثم اھوی رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم الی فراشہ فاستلّ منہ سِواکًا ، ثم اَفرغ فی قَدْحٍ من اِداوۃ عندہٗ ماءً فاستنَّ ، ثم قام فصلّٰی ، الخ “ترجمہ : جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء یعنی عتمہ پڑھ لی ، تو کافی رات لیٹے رہے ، پھر جاگے تو کنارۂ آسمان میں نظر فرمائی ، پھر کہا : (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا) یہاں تک کہ (اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ) تک پہنچ گئے ، پھر اپنے بسترِ مبارک کی طرف جھکے ، وہاں سے مسواک نکالی ، پھر اس برتن سے جو آپ کے پاس رکھا تھا ، پیالے میں پانی انڈیلا ، پھر مسواک کی ، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھی ۔

(مشکوٰۃ المصابیح ، کتاب الصلوٰۃ ، باب صلوٰۃ اللیل ، صفحہ107 ، مطبوعہ کراچی)

       عشاءکے فرضوں کے بعد رات میں پڑھی جانے والی نماز صلاۃ اللیل ہے ۔ چنانچہ المعجم الکبیر للطبرانی میں حضرت اياس بن معاویہ مُزَنِی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ” لا بد من صلاة بليل ولو ناقة ولو حلب شاة ، وما كان بعد صلاة العشاء الآخرة فهو من الليل “ترجمہ : رات میں کچھ نماز ضروری ہے ، اگرچہ اتنی ہی دیر جتنی دیر میں اونٹنی یا بکری دوہ لیتے ہیں اور فرضِ عشا کے بعد جو نماز پڑھی ، وہ صلاۃ اللیل ہے ۔

(المعجم الکبیر للطبرانی ، باب الالف ، اِیاس بن معاویہ المُزَنی ، جلد1 ، صفحہ271، الحدیث : 787 ، مطبوعہ  قاھرہ)

       اس حدیث کے تحت علامہ ابنِ امیر حاج رحمۃ اللہ علیہ تہجد کے متعلق فرماتے ہیں : ” صلاۃ اللیل المحثوث علیھا فی التھجد و قد ذکر القاضی حسین من الشافعیۃ انہ فی الاصطلاح صلاۃ التطوع فی اللیل بعد النوم “ ترجمہ : رات کی نماز کی تہجد میں ترغیب دی گئی ہے اور شوافع میں سے قاضی حسین رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اصطلاح میں یہ (یعنی تہجد) رات میں سونے کے بعد کی نفل نماز ہے ۔

(حلبۃ المجلی شرح منیۃ المصلی ، جلد2 ، صفحہ565،566، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ ، بیروت)

        مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مراٰۃ المناجیح میں فرماتے ہیں : ”قبلِ تہجد ، عشا پڑھ کر سونا شرط ہے ا وربعدِ تہجد کچھ سونا یا لیٹ جانا سنت ہے ۔ “

(مراٰۃ المناجیح ، جلد2 ، صفحہ233، مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز ، لاھور)

       صلاۃ اللیل اور نمازِ تہجد کی تحقیق کے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : ”حقِ تحقیق یہ ہے کہ یہاں دوچیزیں ہیں : صلوٰۃِ لیل و نمازِ تہجد ۔ صلوٰۃِ لیل : ہروہ نمازِنفل کہ بعد فرضِ عشاء رات میں پڑھی جائے ۔ حُضُورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ماکان بعد صلوٰۃ العشاء فھو من اللیل (جونماز بعدِ عشاء پڑھی جائے ، وہ سب نمازِ شب ہے)، رواہ الطبرانی عن ایاس بن معٰویۃ المزنی رضی اللہ تعالیٰ  عنہ بسند حسن ۔۔۔ اور نمازِ تہجد وہ نفل کہ بعد فرضِ عشاء قدرے سوکرطلوعِ فجر سے پہلے پڑھے جائیں، طبرانی حجاج بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی : انما تھجد المرء یصلی الصلوٰۃ بعد رقدۃ (قدرےسو کر آدمی جو نماز اداکرے ، اسے تہجد کہاجاتاہے) ۔ معالم میں ہے: التھجد لایکون الابعد النوم (تہجد سونے کے بعد ہی ہوتی ہے) ۔ حلیہ میں قاضی حسین سے ہے : انہ فی الاصطلاح صلٰوۃ التطوع فی اللیل بعد النوم (اصطلاح میں رات کو سونے کے بعد نوافل کی ادائیگی کوتہجد کہاجاتاہے) ۔ و لہٰذا ردالمحتارمیں فرمایا : صلٰوۃ اللیل وقیام اللیل اعم من التھجد (رات کی نماز اور قیامِ لیل تہجد سے عام ہے) ۔ ملخصا “

(فتاوٰی رضویہ ، جلد7 ، صفحہ408،410 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

       عشاءکے بعد سونے سے پہلے پڑھے جانے والے نوافل صلاۃ اللیل اور سونے کے بعد پڑھے جانے والےنوافل تہجد میں شامل ہوتے ہیں ۔ چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”تہجد پڑھنے والا جسے اپنے اُٹھنے پراطمینان ہو ، اسے افضل یہ ہے کہ وتر بعدِ تہجد پڑھے ، پھر وتر کے بعد نفل نہ پڑھے ، جتنے نوافل پڑھناہوں وترسے پہلے پڑھ لے کہ وہ سب قیام اللیل میں داخل ہوں گے اور اگرسونے کے بعد ہیں ، توتہجد میں داخل ہوں گے ۔“

(فتاوٰی رضویہ ، جلد7 ، صفحہ446،447 ، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

       صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”ايک رات میں بعد نمازِ عشا جو نوافل پڑھے جائیں ، ان کو صلاۃ اللیل کہتے ہیں ۔۔۔ اسی صلاۃ اللیل کی ایک قسم تہجد ہے کہ عشا کے بعد رات میں سو کر اُٹھیں اور نوافل پڑھیں ، سونے سے قبل جو کچھ پڑھیں ، وہ تہجد نہیں ۔ ملخصا “

(بھارِ شریعت ،جلد1 ،حصہ4 ، صفحہ677 ،  مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

وَاللہُ  اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ  تَعَالٰی  عَلَیْہِ  وَاٰلِہٖ  وَسَلَّم