امام کا ہر نماز کے بعد قبلہ سے پِھر کر بیٹھنا کیسا ؟

مجیب:مفتی فضیل صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Har-5620

تاریخ اجراء:02ربیع الاول1441ھ31اکتوبر2019ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ امام صاحب ہر فرض نماز کے بعد دائیں جانب رخ کرکے بیٹھتے ہیں اور پھر دعا کرواتے ہیں،اس پر بعض مقتدیوں کو اعتراض ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ حکم صرف فجر و عصر کی نماز کے لیے ہے، اس کے علاوہ بقیہ فرض نمازیں کہ جن میں فرض کے بعد سنن و نوافل پڑھے جاتے ہیں ،ان میں رخ پھیرنے کا حکم نہیں ہے۔کیا یہ بات درست ہے یا نہیں ؟ اس کی وضاحت فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    امام کا سلام پھیرنے کے بعد قبلہ رُو اسی حالت پر بیٹھے رہنا مکروہ ہے،اس کے لیے سنت یہ ہے کہ دائیں یا بائیں جانب رخ کرکے بیٹھے یا اگر پیچھے محاذات میں کوئی نماز میں مشغول نہ ہو، تو مقتدیوں کی طرف رخ کرکے بیٹھے ۔ احادیث طیبہ میں یہ تینوں طریقے مذکور ہیں، البتہ ان میں افضل یہ ہے کہ دائیں جانب رخ کرکے بیٹھے ۔نیز یہ رخ پھیرنے کا حکم صرف فجر و عصر کے ساتھ خاص نہیں ،بلکہ تمام نمازوں کا یہی حکم ہے۔

    لہٰذا صورت مسئولہ میں امام صاحب کا عمل سنت کے مطابق ہے اوربعض  مقتدیوں کا غلط مسئلہ بتاکر اعتراض کرنا درست نہیں ۔ان پر  بغیر تحقیق کے غلط مسئلہ بتانے  کے گناہ سے توبہ ضروری ہے۔

    فتاوی تاتارخانیہ میں ہے :’’واذا فرغ الامام من الصلاۃ ، اجمعوا علی انہ لایمکث فی مکانہ مستقبل القبلۃ فی الصلوات کلھا الخ‘‘یعنی  جب امام نماز سے فارغ ہو تو فقہائے کرام کا اس پر اجماع ہے کہ وہ تمام نمازوں میں قبلہ رو اپنی جگہ بیٹھا نہ رہے۔

(فتاوی تاتارخانیہ، ج 2، ص 192، مطبوعہ  کوئٹہ )

    سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں :’’بعدِ سلام (امام کا )قبلہ رو بیٹھا رہنا ہر نماز میں مکروہ ہے ، شمال و جنوب و مشرق میں مختار ہے،مگر جب کوئی مسبوق اس کے محاذات میں اگرچہ اخیر صف میں نماز پڑھ رہا ہو ،تو مشرق کو یعنی جانبِ مقتدیان منہ نہ کرے ، بہر حال پھرنا مطلوب ہے، اگر نہ پھرا اور قبلہ رو بیٹھا رہا، تو مبتلائے کراہت و تارک سنت ہوگا۔ ‘‘

(فتاوی رضویہ، ج 6، ص 205، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    بہارشریعت میں ہے :’’سلام کے بعد سنت یہ ہے کہ امام دہنے بائیں کو انحراف کرے اور داہنی طرف افضل ہے اور مقتدیوں کی طرف بھی مونھ کرکے بیٹھ سکتا ہے ، جب کہ کوئی مقتدی اس کے سامنے نماز میں نہ ہو ، اگرچہ کسی پچھلی صف میں وہ نماز پڑھتا ہو۔ ‘‘

(بھار شریعت، ج 1، ص 537، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی )

    صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ ظہر ،مغرب اورعشاء کی فرض نماز  کے بعد رخ پھیر کر دعامانگنے سےمتعلق  فتاوی امجدیہ میں  ارشاد فرماتے ہیں :’’ان نمازوں میں بھی دائیں بائیں انصراف کرکے دعا مانگنا جائز ،بلکہ احادیث کے اطلاق سے یہی ثابت اور سنت ہے ،البتہ جن نمازوں کے بعد سنتیں ہیں ان میں مختصر دعا مانگے اور فجر و عصر کے بعد ادعیہ طویلہ و اذکار کثیرہ کی بھی اجازت ہے۔ حلیہ میں تصریح ہے کہ جن نمازوں کے بعد سنن ہیں ان کے بعد بھی انصراف کرے کہ علت مشترک ہے اور احادیث کے اطلاق سے یہی ثابت۔ ملخصا‘‘

(فتاوی امجدیہ،ج 1،ص 79،مکتبہ رضویہ ،آرام باغ روڈ،کراچی)

    غلط مسئلہ بیان کرنے سے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:’’جھوٹا(یعنی غلط)مسئلہ بیان کرنا، سخت شدید کبیرہ ہے ، اگر قصداً ہے تو شریعت  پر افتراء ہے اور شریعت پر افتراء اللہ عزوجل پر افتراء ہےاور اگر بے علمی سے ہے تو جاہل پر سخت حرام ہے کہ وہ فتوی دے ۔ملخصا‘‘

 (فتاوی رضویہ، ج 23، ص 711، 712،رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم