مقتدی نماز میں اس وقت شامل ہوا کہ امام رکوع میں تھا اور امام کے ساتھ رکوع کر لیا، تو وہ رکعت شمار ہوگی یا نہیں؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Sar-7088

تاریخ اجراء:26صفرالمظفر1442ھ/14اکتوبر2020

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتےہیں علمائےکرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ جماعت میں اگرامام صاحب رکوع میں ہوں اورکوئی اس دوران آکرنمازمیں شامل ہوجائےاورامام کےساتھ ہی رکوع کرلے،توکیااسےوہ رکعت ملی یانہیں؟دلائل کےساتھ ارشادفرمائیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    اگرامام صاحب رکوع میں ہوں اورکوئی نمازی سیدھےکھڑےہوکرتکبیرتحریمہ کہےاورپھرامام کےرکوع سےسراٹھانےسےپہلےہی رکوع میں چلاجائے،تواسے وہ رکعت مل گئی۔

    امام کےساتھ رکوع کرلینےپررکعت شمارہونےکےبارےمیں حدیث پاک میں ہے:”عن النبی صلى الله عليه وسلم قال اذاجئتم والامام راكع فاركعوا،وان كان ساجدافاسجدوا ،ولاتعتدوابالسجوداذالم يكن معه الركوع“ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےارشادفرمایاکہ جب تم(نمازکےلئے)آؤاورامام رکوع کی حالت میں ہو،تورکوع کرلواوراگرسجدےکی حالت میں ہو،توسجدہ کرلواورسجدے میں شامل ہونےکو(رکعت)شمارنہ کرو،جب تک کہ اس(سجدے)کےساتھ رکوع نہ ہو۔

(السنن الکبری للبیھقی،کتاب الصلاۃ،باب ادراك الامام فی الركوع،جلد2،صفحہ128،مطبوعہ بیروت)

    امام کورکوع میں پالیا،تورکعت ملنےکےبارےمیں مصنف عبدالرزاق،مصنف ابن ابی شیبہ اورسنن کبری للبیہقی میں ہے:”واللفظ للآخر:عن ابن عمرانه كان يقول من ادرك الامام راكعا،فركع قبل ان يرفع الامام رأسه،فقدادرك تلك الركعة“ترجمہ: حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما سےروایت ہے،آپ فرماتےہیں کہ جس نےامام کوحالتِ رکوع میں پایااورامام کےسراٹھانےسےپہلےہی اس نے رکوع کرلیا،تواس نےاس رکعت کوپالیا۔

(السنن الکبری للبیھقی،کتاب الصلاۃ،باب ادراك الامام فی الركوع،جلد2،صفحہ128،مطبوعہ بیروت)

    سنن کبری للبیہقی میں ہے کہ حضرت زیدبن وہب رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ میں اورحضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نےامام کو حالت رکوع میں پایا،توہم بھی(تکبیرکہہ کر)رکوع میں شامل ہوگئے”فلماقضى الامام الصلاة،قمت واناارى انی لم ادرك فاخذ عبدالله بيدی واجلسنی،ثم قال انك قد ادركت“ترجمہ:توجب امام نےنمازمکمل کی،تومیں یہ سوچ کرکھڑاہوگیاکہ مجھےرکعت نہیں ملی،تو حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نےمیراہاتھ پکڑکرمجھےبٹھایا،پھرفرمایاکہ تم نے(رکعت)پالی تھی۔

(السنن الکبری للبیھقی،کتاب الصلاۃ،باب من ركع دون الصف،جلد2،صفحہ130،مطبوعہ بیروت)

    امام کورکوع میں پالیا،تورکعت ملنےکےبارےمیں حاشیۃالطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:”والحاصل انه اذاوصل الى حد الركوع قبل ان يخرج الامام من حدالركوع فقدادرك معه الركعةوالافلاكمايفيده اثرابن عمر“ترجمہ:اورحاصلِ کلام یہ ہےکہ جب امام کےحدِرکوع سےنکلنےسےپہلےہی مقتدی حدِرکوع تک پہنچ جائے،تواسےوہ رکعت مل گئی،ورنہ نہیں ملی،جیساکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت اس کافائدہ دیتی ہے۔

 (حاشیۃالطحاوی علی مراقی الفلاح،کتاب الصلاۃ،باب ادراک الفریضہ،صفحہ455،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم