کن اوقات میں قضا نماز پڑھنا جائز نہیں؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin-6580

تاریخ اجراء:12صفر المظفر1442ھ30ستمبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کن اوقات میں قضا نمازیں پڑھنا جائز نہیں ہے؟

 سائل:غلام ربانی عطاری (کوٹلی، آزاد کشمیر)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    تین اوقاتِ مکروہہ ( یعنی سورج طلوع ہونے سے لے کر تقریباً 20 منٹ بعد تک، سورج غروب ہونے کے وقت سے تقریباً 20 منٹ پہلے کا دورانیہ اور ضحوۂ کبری یعنی نصف النہارِ شرعی سے لے کر سورج ڈھلنے تک، جسے عوام زوال کے نام سے جانتی ہے، ان ) میں قضا نمازیں ادا کرنا، جائز نہیں۔ یونہی عین خطبہ کے وقت بھی قضا نماز پڑھنا جائز نہیں، (خطبہ خواہ جمعہ کا ہو یا عیدین کا یا ان کے علاوہ)، مگر صاحبِِ ترتیب کے لیے خطبہ جمعہ کے وقت قضا نماز کی اجازت ہے، نیز فرض نماز کا وقت تنگ ہو، تو بھی قضا نماز منع ہے، حتی کہ تنگی وقت کے سبب صاحبِ ترتیب سے اُس وقتی نماز اور قضاکے درمیان ترتیب ساقط ہو جاتی ہے۔

    صحیح بخاری و مسلم، مسند امام احمد ،المعجم الاوسط اور دیگر کتبِ احادیث میں ہے:واللفظ للمعجم:’’ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن الصلاۃ فی ثلاث ساعات: عند طلوع الشمس حتی تطلع ونصف النھار وعند غروب الشمس‘‘ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین اوقات میں نمازپڑھنےسے منع فرمایا۔ سورج طلوع ہونے کے وقت حتی کہ (اچھی طرح) طلوع ہو جائے، نصف النہار اور غروبِ آفتاب کے وقت۔

 (المعجم الاوسط للطبرانی، جلد 5، صفحہ 53، مطبوعہ قاھرہ)

    امداد الفتاح میں ہے:’’ثلاثۃ اوقات لا یصح فیھا شیء من الفرائض والواجبات التی لزمت فی الذمۃ قبل دخولھا، عند طلوع الشمس الی ان ترتفع و عند استوائھا الی ان تزول وعند اصفرارھا الی ان تغرب‘‘ ترجمہ: تین اوقات وہ ہیں، جن میں ایسے فرائض و واجبات ادا کرنا درست نہیں ، جو ان اوقات کے داخل ہونے سے قبل لازم ہو گئے تھے، (وہ تین اوقات یہ ہیں) سورج طلوع ہونے سے لے کر بلند ہونے تک، وقتِ استواء سے سورج ڈھلنے تک اور سورج کے زرد ہونے سے لے کر غروب ہونے تک۔

           (امداد الفتاح شرح نور الایضاح، صفحہ 194،  کوئٹہ)

    بدائع الصنائع میں ہے:’’ ليس للقضاء وقت معين بل جميع الاوقات وقت له الا ثلاثة: وقت طلوع الشمس ووقت الزوال ووقت الغروب، فانه لا يجوز القضاء في هذه الاوقات لما مر ان من شان القضاء ان يكون مثل الفائت والصلاة في هذه الاوقات تقع ناقصة والواجب في ذمته كامل، فلا ينوب الناقص عنه‘‘ ترجمہ: قضا ء نماز کے لیے کوئی وقت معین نہیں ہے، بلکہ تمام اوقات میں(جس وقت چاہیں) پڑھ سکتے ہیں، سوائے تین اوقات کے، یعنی طلوعِ شمس، زوال اور غروب کے وقت کہ ان اوقات میں قضا نماز پڑھنا جائز نہیں ، جیسا کہ گزرا کہ قضا کی ادائیگی فوت ہونے والی نماز کی مثل ہونی چاہئے اور ان اوقات میں نماز ناقص ہوتی ہے، جبکہ اس کے ذمے کامل نماز واجب ہوئی تھی، لہذا ناقض اس کے قائم مقام نہیں ہو گی۔

 (بدائع الصنائع، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 246، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)

    بہار شریعت میں مکروہ اوقات کی تفصیل کچھ یوں ہے:’’اوقاتِ مکروہہ: طلوع و غروب و نصف النہار، ان تینوں وقتوں میں کوئی نماز جائز نہیں، نہ فرض، نہ واجب، نہ نفل، نہ ادا، نہ قضا، یوہیں سجدۂ  تلاوت و سجدۂ سہو بھی ناجائز ہے، البتہ اس روز اگر عصر کی نماز نہیں پڑھی تو اگرچہ آفتاب ڈوبتا ہو پڑھ لے ،مگر اتنی تاخیر کرنا حرام ہے ۔ حدیث میں اس کو منافق کی نماز فرمایا۔ طلوع سے مراد آفتاب کا کنارہ ظاہر ہونے سے اس وقت تک ہے کہ اس پر نگاہ خیرہ ہونے لگے، جس کی مقدار کنارہ چمکنے سے ۲۰ منٹ تک ہے اور اس وقت سے کہ آفتاب پر نگاہ ٹھہرنے لگے ڈوبنے تک غروب ہے، یہ وقت بھی ۲۰ منٹ ہے، نصف النہار سے مراد نصف النہار شرعی سے نصف النہار حقیقی یعنی آفتاب ڈھلکنے تک ہے جس کو ضحوۂ کبریٰ کہتے ہیں، یعنی طلوع فجر سے غروب آفتاب تک آج جو وقت ہے، اس کے برابر ، برابر دو حصے کریں، پہلے حصہ کے ختم پر ابتدائے نصف النہار شرعی ہے اور اس وقت سے آفتاب ڈھلنے تک وقت استوا و ممانعت ہر نماز ہے ان اوقات میں قضا نماز ناجائز ہے۔‘‘

 (بھار شریعت، حصہ 3، جلد 1 ، صفحہ 454، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    خطبے کے وقت قضا نماز پڑھنے کے متعلق فتح باب العنایہ میں ہے:’’(تکرہ) ای الصلاۃ وسجدۃ التلاوۃ وصلاۃ الجنازۃ الا الفائتۃ لصاحب الترتیب (اذا خرج) ای صعد (الامام) المنبر (للخطبۃ) ای خطبۃ الجمعۃ او العیدین او الحج او الکسوف او الاستسقاء‘‘ ترجمہ: جب امام خطبے کے لیے منبر پہ آ جائے، تو نماز، سجدہ تلاوت اور نمازِ جنازہ ادا کرنا مکروہ ہے، مگر صاحبِ ترتیب کے لیے فوت شدہ نماز پڑھنا مکروہ نہیں، خطبہ جمعہ کا ہو یا عیدین کا یا پھر حج کا یا  نمازِ کسوف یا نمازِ استسقاء کا ہو۔

(فتح باب العنایہ شرح نقایہ، کتاب الصلوۃ، صفحہ 192، مطبوعہ بیروت)

    تنگی وقت کے متعلق در مختار اور رد المحتار میں ہے:’’(يكره غير المكتوبة عند ضيق الوقت) اي المكتوبة الوقتية، فشملت الكراهة النفل والواجب والفائتة ولو كان بينها وبين الوقتية ترتيب ‘‘ ترجمہ: وقت میں تنگی ہو تو غیر فرض کی ادائیگی مکروہ ہے، یہاں فرض سے مراد وقتی فرض نماز ہے اور یہ کراہت نفل، واجب، قضا کو بھی شامل ہے، اگرچہ قضا اور وقتی فرض کے درمیان ترتیب والا معاملہ ہو۔

(رد المحتار مع در مختار، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 378، مطبوعہ بیروت)

    بہار شریعت میں ہے:’’عین خطبہ کے وقت اگرچہ پہلا ہو یا دوسرا اور جمعہ کا ہو یا خطبۂ عیدین یا کسوف و استسقا و حج و نکاح کا ہو، ہر نماز حتیٰ کہ قضا بھی ناجائز ہے، مگر صاحب ترتیب کے ليے خطبہ جمعہ کے وقت قضا کی اجازت ہےفرض کا وقت تنگ ہو، تو ہر نماز یہاں تک کہ سنت فجر و ظہر مکروہ ہے۔‘‘

 (بھار شریعت، حصہ 3، جلد 1 ، صفحہ 456،457، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم