نماز میں رکوع و سجدے کی تکبیرات کہنے کا طریقہ ؟

مجیب:مولانا ذاکر جسین مدنی زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Har-5716

تاریخ اجراء:09جمادی الاولی1441ھ/05جنوری2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ قیام سے رکوع کی طرف جاتے وقت، یونہی رکوع سے  کھڑے ہوتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ اور سجدہ میں جاتے، سجدہ سے اٹھتے وقت جو تکبیر کہی جاتی ہے۔یہ کس وقت کہنی چاہیے ؟  میں نے کچھ نمازیوں کو دیکھا ہے کہ  وہ پہلےمکمل تکبیر کہتے ہیں پھر رکوع ،سجدہ وغیرہ جو عمل کرنا ہوتا ہے،اس کی طرف منتقل ہوتے ہیں، جبکہ کچھ افراد، اس کے برعکس پہلے رکوع،سجدہ وغیرہ جہاں جانا ہوتا ہے وہاں چلے جاتے ہیں، پہنچنے کے بعد  پھر تکبیر کہتے ہیں ۔ ان میں سے کونسا طریقہ درست ہے ؟ وضاحت فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    تکبیرات انتقال یعنی نماز میں ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہوتے وقت جو تکبیر کہی جاتی ہے، یونہی رکوع سے اٹھتے وقت تسمیع یعنی سمع اللہ لمن حمدہ کہا جاتا ہے، ان تمام میں سنت یہ ہے کہ جب ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہونے لگے مثلاً قیام سے رکوع کی طرف جانے لگے تو اس وقت تکبیر  یعنی اللہ اکبر کے الف سے آغاز کرےاور جیسے ہی حالت تبدیل ہوجائے مثلاً قیام سےرکوع میں پہنچ جائے توتکبیر ختم و مکمل کردے۔سوال میں مذکور دونوں طریقے یعنی مکمل تکبیر اسی سابقہ حالت(مثلاً قیام) میں کہہ کر پھر خاموشی سے ایک حالت سے دوسری حالت(مثلاً قیام سے رکوع) کی طرف منتقل ہونا اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہونے کے بعد(مثلاً قیام سے رکوع میں پہنچنے کے بعد) تکبیر کا آغاز کرنا،خلاف سنت اورمکروہ تنزیہی ہیں، لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ ان دونوں طریقوں سے اجتناب کریں اور شروع میں بیان کردہ سنت طریقے پر عمل کریں ۔

    متن تنویر الابصا اور شرح درمختار میں ہے :"(ثم)کما فرغ( یکبر)مع الانحطاط(للرکوع) "پھر جیسے قراءت سے فارغ ہو،رکوع کے لیے جھکتے ساتھ ہی تکبیر کہے۔

 (متن تنویر الابصار و شرح درمختار مع ردالمحتار، ج 2، ص 239، 240، مطبوعہ  کوئٹہ )

    علامہ محقق ابن عابدین الشامی علیہ الرحمۃ  درمختار کی عبارت (مع الانحطاط) کے تحت فرماتے ہیں :"افاد ان السنۃ کون ابتداء التکبیر عند الخرور و انتھائہ عند استواء الظھر ۔وقیل انہ یکبر قائماً و الاول ھو الصحیح کما فی المضمرات و تمامہ فی القھستانی "(اس عبارت میں )اس  بات کا افادہ فرمایا کہ سنت  یہ ہے کہ تکبیر کی ابتداء، رکوع کے لیے جھکتے وقت ہو اورانتہا،  پیٹھ برابر ہوتے وقت  ہو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تکبیر ،قیام میں کہی جائے لیکن پہلا قول ہی صحیح ہے جیسا کہ مضمرات میں ہے، اس کی مکمل بحث قہستانی میں ہے۔

(ردالمحتار،ج 2، ص 240، مطبوعہ  کوئٹہ )

    سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں :"سنت یہ ہے کہ سمع اللہ کا سین رکوع سے سر اٹھانے کے ساتھ کہیں  اور حمدہ کی ہ سیدھا ہونے کے ساتھ ختم ، اسی طرح ہر تکبیر انتقال میں حکم ہے کہ ایک فعل سے دوسرے فعل کو جانے کی ابتداء کے ساتھ اللہ اکبر کا الف شروع ہو اور ختم کے ساتھ ختم ۔"

      (فتاوی رضویہ، ج 6، ص 188، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور )

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم