مکروہ وقت میں قضا نماز پڑھنے کا حکم ؟

مجیب:مفتی علی اصفر صاحب مد ظلہ العالی

فتوی نمبر: Nor-9421

تاریخ اجراء:11 محرم الحرام1439ھ/22ستمبر2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکے بارے میں کہ تین مکروہ اوقات میں سے کسی وقت میں قضا نماز پڑھ لی، تو وہ نماز ہو جائے گی یا نہیں؟ اگر نماز ہو جائے گی تو واجب الاعادہ ہو گی یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    قضا نماز کامل یعنی تین مکروہ اوقات  کے علاوہ کسی وقت میں ادا کرنا لازم ہے، اگر کسی نے مکروہ وقت میں قضا نماز ادا کی، تو اس کی نماز ادا ہی نہیں ہو گی ، البتہ اس دن کی نماز ِعصر ادا نہ کی ہو، توغروب سے پہلے ادا کرنے کا حکم ہے۔نیز عصر  کی نماز میں  بلا اجازتِ شرعی اتنی تاخیر کرنا بھی ناجائز ہے۔تین مکروہ اوقات  یہ ہیں: (1)سورج طلوع ہونے سے لے کر تقریباً20 منٹ بعد تک ۔ (2) سورج غروب ہونے کے وقت سے   تقریبا ً20 منٹ  پہلے ۔ (3) اور ضحوۂ کبریٰ یعنی نصف النہار شرعی سے لے کرسورج ڈھلنے تک ۔

    تین مکروہ اوقات میں قضا نماز نہ ہونے کے متعلق بدائع الصنائع میں ہے:”اما شرائط جواز القضاء فجمیع ما ذکرنا انہ شرط جواز الاداء فھو شرط جواز القضاء الا الوقت فانہ لیس للقضاء وقت معین بل جمیع الاوقات وقت لہ الا ثلاثۃ، وقت طلوع الشمس و وقت الزوال و وقت الغروب فانہ لا یجوز القضاء فی ھذہ الاوقات لما مر ان من شان القضاء ان یکون مثل الفائت والصلاۃ فی ھذہ الاوقات تقع ناقصۃ والواجب فی ذمتہ کامل فلا ینوب الناقص عنہ وھذا عندنا“ترجمہ: قضا نماز کو ادا کرنے کی تمام شرائط وہی ہیں جو ادا کی شرائط ہیں سوائے وقت کے، کہ  قضا کے لیے کوئی وقت معین نہیں ،بلکہ تمام اوقات میں قضا نماز جائز ہے، سوائے تین اوقات  یعنی سورج طلوع ، غروب ہونے اوروقتِ زوال کے، کہ ان اوقات میں قضا نماز پڑھنا جائز نہیں ، جس کی وجہ گزر چکی کہ قضا نماز ، فوت شدہ نماز  کی مثل ہونی چاہیے اور ان اوقات میں نماز ناقص واقع ہو گی حالانکہ اس کے ذمے کامل نماز واجب ہے، لہذا ہمارے نزدیک ناقص نماز، کامل کے قائم مقام نہیں ہو گی۔

(بدائع الصنائع ، کتاب الصلاۃ ، فصل فی صلاۃ الخوف ، ج2، ص159، دار الحدیث ، قاھرہ)

    مکروہ اوقات میں فرض نماز شروع ہی نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ درمختار میں ہے:”لا ینعقد الفرض وما ھو ملحق بہ کواجب لعینہ کوتر وسجدۃ تلاوۃ وصلاۃ جنازۃ ، تلیت الآیۃ فی کامل وحضرت الجنازۃ قبل لوجوبہ کاملا فلا یتادی ناقصا “ ترجمہ: فرض اور جو فرض سے ملحق ہوں ، جیسے واجب لعینہ مثلاً وتر اور وہ سجدہ تلاوت جس کی آیت کامل وقت میں تلاوت کی گئی ہو ، نماز جنازہ جبکہ پہلے سے لایا جا چکا ہو ، ان اوقات میں منعقد ہی نہیں ہوتے ،کیونکہ یہ  کامل واجب ہونے کی وجہ سے ناقص طریقے پر ادا نہیں ہو سکتے۔

    مکروہ اوقات میں فرض منعقد نہ ہونے کی تائید کرتے ہوئے علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:”لا ینعقد الفرض ، اشار الی ما فی الخانیۃ من نواقض الوضوء حیث قال لو شرع فی فریضۃ عند الطلوع او الغروب سوی عصر یومہ ، لم یکن داخلا فی الصلاۃ فلا تنتقض طھارتہ بالقھقھۃ“ترجمہ: فرض منعقد نہیں ہوں گے ، اس سے خانیہ کے نواقض وضو میں موجود مسئلے کی طرف اشارہ کیا کہ سورج طلوع یا غروب ہونے کے وقت اس دن کی عصر کے علاوہ کوئی فرض نماز شروع کی تو نماز میں داخل ہی نہیں ہو گا ،لہٰذا نماز میں قہقہہ لگانے کی وجہ سے اس کا وضو بھی نہیں ٹوٹے گا۔

(درمختار مع ردالمحتار ، کتاب الصلاۃ ، ج2، ص42، مطبوعہ کوئٹہ)

    تین مکروہ اوقات میں قضا نماز ادا کی تو برئ الذمہ نہ ہونے کے متعلق بہار شریعت میں ہے:”قضا نماز  کے لیے کوئی وقت معین نہیں ، عمر میں جب پڑھے برئ الذمہ ہو جائے گا، مگر طلوع و غروب اور زوال کے وقت ، کہ ان وقتوں میں نماز جائز نہیں۔“

(بھار شریعت ، ج1، ص702، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

    تین مکروہ اوقات کی وضاحت کرتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:”طلوع و غروب و نصف النہار، ان تینوں وقتوں میں کوئی نماز جائز نہیں ، نہ فرض نہ واجب نہ نفل، نہ ادا نہ قضا ، یوہیں سجدہ تلاوت و سجدہ سہو بھی ناجائز ہے، البتہ اس روز کی عصر کی نماز نہیں پڑھی تھی ،تو اگرچہ آفتاب ڈوبتا ہو ، پڑھ لے مگر اتنی تاخیر کرنا حرام ہے ، حدیث میں اس کو منافق کی نماز فرمایا ، طلوع سے مراد آفتاب کا کنارہ ظاہر ہونے سے اس وقت تک ہے کہ اس پر نگاہ خیرہ ہونے لگے جس کی مقدار 20 منٹ تک ہے  اور اس وقت سے کہ آفتاب پر نگاہ ٹھہرنے لگے، ڈوبنے تک ، غروب ہے یہ وقت بھی 20 منٹ ہے ، نصف النہار سے مراد نصف النہار شرعی سے نصف النہار حقیقی یعنی آفتاب ڈھلنے تک ہے جس کو ضحوۂ کبریٰ کہتے ہیں یعنی طلوع فجر سے غروب آفتاب تک آج جو وقت ہے اس کے برابر برابر دو حصے کریں ،  پہلے حصہ کے ختم پر ابتدائے نصف النہار شرعی ہے اور اس وقت سے آفتاب ڈھلنے تک وقت استوا و ممانعت ہر نماز ہے۔“

 (بھار شریعت ، ج1، ص454، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم