مجیب: محمد ساجد عطاری
فتوی نمبر: LHR.J -0478
تاریخ اجراء: 27 ذ ی الحجۃ الحرام 1443 ھ/27 جولائی 2220 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائےدین
و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ایک کمپنی ہے این
جی آر ( NGR) کے نام سے ۔ کمپنی کہتی ہے کہ ہم سولر انرجی بناتے ہیں
اور سیل کرتے ہیں اور جو نفع ہوتا ہے اپنے شرکاء کے ساتھ شیئر
کرتے ہیں ۔ آپ اپنے پیسے ہماری کمپنی میں انویسٹ کریں اور منافع کمائیں۔ انویسٹ کر
نے کے لیے کمپنی نےمختلف پیکج بنائے ہیں اور انویسٹ کے حساب سے نفع کی
مقدار پہلے سے طے ہوتی ہے ۔
مثلا:
چار ہزار والے پیکج میں آپ
پہلے چار ہزار روپے کمپنی کے اکاؤنٹ
میں ایزی پیسہ وغیرہ کے ذریعے جمع کروائیں
گے، پھر چار ہزار والا پینل ایپ میں جا کر
ایکٹِو(Active) کریں گے ۔ اس کے بعد آپ کو نفع ملنا شروع ہو
جائے گا۔اس پیکج کا نفع
روزانہ86.40 روپے ملے گا۔ نفع ایک
ہفتے تک ملتا رہے گا ۔ اس کے بعد آپ کی انویسٹ کی ہوئی
رقم اور منافع دونوں آپ نکال سکتے ہیں اور چاہیں تو دوبارہ پینل
ایکٹو کر کے مزید انویسٹ کر دیں۔ایک بندہ ایک
سے زیادہ پینل بھی ایکٹو کر سکتا ہے۔
نفع
ایپلی کیشن میں
ہر دو گھنٹے بعد شو ہوتا ہے، جسے چوبیس گھنٹوں میں کم از کم ایک
بار ایپلی کیشن کھول کر
وصول کرنا ہوتا ہے ، اگر نہ کیا
جائے تو نفع واپس چلا جاتا ہے۔
مزید
یہ کہ اگر آپ اپنے ذریعے سے پانچ ممبر بناتے ہیں جو کمپنی
میں انویسٹ بھی کر دیں، تو آپ کو تین ہزار روپے کمپنی کی
طرف سے بونس ملے گا اور ممبر جتنی
رقم انویسٹ کریں گے ،اس کا کچھ فیصد حصہ آپ کو کمیشن
کے طور پر بھی ملے گا۔وہ ممبر جب مزید ممبر بنائیں گے، تو
بھی آپ کو کچھ نہ کچھ کمیشن ملے گا۔
ممبر
بنانے کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ آپ کا لیول اَپ
(UP)ہو جائے گا، پانچ ممبرز پر پہلا لیول،
دس پر دوسرا ، بیس پر تیسرا ، اسی طرح آگے تک چلتا رہے
گا۔لیول جتنا بڑا ہوگا اتنی زیادہ رقم انویسٹ کر
سکتے ہیں، یعنی بڑے لیول کا پینل لے سکتے ہیں
جس میں زیادہ نفع ملتا ہے ۔
نوٹ:
معلومات کے مطابق کمپنی کی ویب سائٹ کوئی نہیں ہے،
صرف ایپلی کیشن ہےاور
اس پر بھی اکاؤنٹ بنانے کے لیے VPNآن
کرنا پڑتا ہے۔اور اس کے طریقہ کار کے متعلق معلومات زیادہ تر ان
لوگوں سے ہی ملتی ہے، جو اس میں انویسٹ کر رہے ہیں۔
کمپنی کا پاکستان میں کوئی
آفس نہیں ہے، ہاں بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلام آباد کے بلیو ایریا
میں آفس ہے، لیکن اس کی تصدیق نہیں ہے، گوگل میپ
پر بھی اسلام آباد کے کسی علاقے میں آفس شو نہیں ہوتا۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ
بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ
وَالصَّوَابِ
سوال
میں این جی آر (NGR)کمپنی کا جو
طریقہ کار بیان کیا گیا ہے ، اس طریقہ کار کے مطابق
NGR کمپنی میں انویسٹ کرنا، منافع کمانا، دوسرے افراد کو ترغیب دینا اور ممبر
بنوانا سب حرام ، حرام
اور سخت حرام ہے۔
جو لوگ اس کام میں ملوث ہیں یا دوسروں کو اس پر لگا رہے
ہیں ،وہ سب گنہگار ہو رہے ہیں ، ایسوں کو چاہیے
کہ فورا اس کام سے باز آئیں اور اللہ کی بارگاہ میں سچے دل سے
توبہ کریں اوراگر کسی نے
یہاں سے کچھ نفع کمایا ہے تواس
پر لازم ہے کہ وہ رقم بغیر ثواب کی نیت کے کسی
شرعی فقیر یعنی
مستحق زکوۃ شخص کو دے اور اس ناپاک مال سے جان چھڑائے ۔
تفصیل
کچھ یوں ہے کہ مذکورہ کمپنی
میں انویسٹ کرنے کے لئے جو رقم دی جاتی ہے یہ شراکت
و مضاربت وغیرہ کے شرعی اصولوں کے مطابق ہرگز نہیں ہے، كيونكہ
· کسی کاروبار میں انویسٹ
کر کے حصہ دار بننے کے لیے
شرعی اصول یہ ہوتا ہے کہ انویسٹ کرنے والے کو کاروبار کے حقیقی نفع میں سے
باعتبار فیصد حصہ دیا جائے ،جبکہ یہاں نفع کے فیصد کے
بجائے فکس اماؤنٹ نفع طے ہے ، حالانکہ نفع
کی مخصوص رقم طے کر لینا شراکت داری کے معاہدے کے ہی برخلاف
اور ناجائز و گناہ ہے ۔
· یونہی شرعی اصول یہ ہے کہ رقم دینے
والا کاروبار میں اپنے مال کی مقدار کے مطابق نقصان کی ذمہ داری بھی اٹھاتا
ہے، لیکن یہاں تو رقم لگانے والے کو کمپنی یہ
گارنٹی دیتی ہے کہ تمہارے
اپنے انویسٹ کیے ہوئے
پیسے ایک ہفتے بعد
تمہیں مل جائیں گے ۔ مطلب انویسٹ کرنے والا نقصان
میں حصہ دا ر ہی نہیں بن رہااور یہ بھی خلاف شرع
اور ناجائزو باطل ہے۔
درمختار میں ہے: ”(وشرطها) أي شركة العقد ……عدم ما يقطعها
كشرط دراهم مسماة من الربح لأحدهما) لأنه قد لا يربح غير المسمى“ترجمہ: شرکت عقد کی شرط یہ ہےکہ
کوئی ایسی چیز نہ پائی جائے جو شرکت کو ختم
کردیتی ہے،جیسےنفع میں سے دراہم کی معین مقدار کسی ایک کے
لیے طے کر لینا ، کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ صرف اتنی مقدار ہی نفع ہوتا ہے، اس
سے زیادہ نہیں ہوتا(ایسی صورت میں سارااس ایک
بندے کے لیےمتعین ہو جائے گا۔) (درمختار مع رد المحتار، جلد4، صفحہ 305، دار الفکر، بیروت)
شلبی
میں ہے: ” وإذا شرط فی المضاربة ربح عشرة أو في
الشركة تبطل لا لأنه شرط فاسد بل لأنه شرط ينتفی به الشركة “ترجمہ: مضاربت یا شرکت میں دس
(دراہم) نفع طے کر لیا گیا،
تو عقد باطل ہو گا، اس لیے
نہیں کہ یہ شرط فاسد
ہے، بلکہ اس لیے کہ یہ ایسی شرط ہے جس کی
وجہ سے شرکت ہی ختم ہو رہی ہے۔ (شلبی علی التبيين ، جلد3، صفحہ 320، دار الکتاب الاسلامی)
مبسوط
سرخسی میں ہے:”الوضيعة على قدر
رءوس أموالهما، لأن الشرط بخلافه كان باطلا “ترجمہ: نقصان دونوں بندوں کے راس المال کی مقدار
ہوتا ہے ،لہذا اس کے برخلاف کچھ بات طے
کرناباطل ہے ۔(المبسوط للسرخسی، جلد11،
صفحہ 158، دار المعرفہ، بیروت)
بلکہ شرعی اعتبار سے اس معاملے
کی حقیقت کو دیکھا جائے تو یہ کسی کاروبار
میں شرعی شراکت نہیں،
بلکہ خالصا سودی معاملے میں حصہ داری ہے، کیونکہ
جب یہ طے ہے کہ انویسٹ کرنے والے کی رقم محفوظ رہے گی اور بعد میں نفع کے
ساتھ واپس مل جائے گی، تو اس رقم کی حیثیت قرض کی ہے اور کمپنی اس پر جومنافع دے رہی ہے ،وہ قرض پر نفع دے رہی ہے اور
قرض پر نفع دینا سود اور حرام
قطعی اور جہنمی کام ہے،جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا” کل قرض جر منفعۃ فھو ربا“ترجمہ:ہروہ قرض جونفع کھینچے تووہ سودہے۔
(مسندالحارث،جلد1،صفحہ 500،مرکزخدمۃ السنۃوالسیرۃ
النبویۃ،المدینۃ المنورہ)
اسی
صورت سے ملتی جلتی ایک صورت کے متعلق امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت
الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃلکھتے ہیں :”اور یہ کہ دس فیصدی یا آنہ
روپیہ دینا، اگر اس سے مراد ہے کہ جتنے روپے اس کو تجارت کے
لیے دئے ہیں، ان پر فیصدی دس یا فی
روپیہ ایک آنہ مانگتا ہے، تو حرام قطعی اور سود ہے،اور اگر
یہ مراد کہ جو نفع ہواس میں سے دسواں یا سولھواں حصہ دینا
، تو یہ حلال ہے۔“(فتاوی رضویہ، ج 19، ص
151، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور )
سود
سے متعلق اللہ تبارک وتعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا
ہے:﴿یٰۤاَیُّہَا
الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوۡا مَا بَقِیَ
مِنَ الرِّبٰۤوا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ﴿۲۷۸﴾فَاِنۡ
لَّمْ تَفْعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوۡلِہٖ﴾ترجمہ کنز العرفان: ’’ اے
ایمان والو! اگر تم ایمان والے ہو ،تواللہ سے ڈرو اور جو
سودباقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو۔ پھر اگر تم ایسا
نہیں کرو گے تو اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے لڑائی کا
یقین کرلو۔‘‘(سورۃ
البقرہ ، آیت 278، 279)
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ
فرماتے ہیں :’’ لعن رسول اللہ
صلى اللہ عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله‘‘ ترجمہ: اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ و سلم نے سودکھانے
والے، سود کھلانے والے پر لعنت
فرمائی۔ (الصحیح لمسلم، کتاب البیوع،جلد3، صفحہ
1219،حدیث1598، دار احیاء التراث العربی، بیروت)
ایک اور
حدیث پاک میں ہے کہ نبی اکر م صلی اللہ تعالی
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ومن أكل درهما
من ربا فهو مثل ثلاث وثلاثين زنية، ومن نبت لحمه من السحت فالنار أولى به “ترجمہ:جس نے ایک
درہم سود کا کھایا ،تو وہ تینتیس زنا کے برابر ہےاور جس کا گوشت
حرام سے بڑھے تو نارجہنم اس کی زیادہ مستحق ہے۔ (المعجم الاوسط ، جلد3، صفحہ 211، دار الحرمین ، قاھرہ)
اور
دوسرے افراد کو کمپنی کا ممبر بنانے پر جو کمیشن اور بونس رکھا
گیا ہے، تو یہ بھی حقیقت میں نیٹ ورک
مارکیٹنگ کمپنیوں کی
طرح ایک لالچ و طمع کا جال بچھایا گیا ہے تاکہ لوگ خود ہی
بونس و کمیشن کی خاطر دوسروں کو گھیر کر کمپنی سے وابستہ
کرتے چلے جائیں اور کمپنی کے پاس لاکھوں روپے بغیر محنت کے جمع
ہو جائیں،بہر حال اس سے قطع نظر
کمیشن کا طے کردہ
طریقہ کارفقہی قوانین
شرعیہ کے بھی خلاف ہے، کیونکہ کمیشن ایجنٹ اس
وقت کمیشن یا اجرت کا مستحق ہوتا ہے، جب وہ گاہک لانے میں قابل معاوضہ کام اور محنت و کوشش کرے ،جبکہ یہاں یہ طےہے کہ پانچ ممبر کمپنی
کو رقم دیں گے، تو بونس ملے گا اگرچہ ممبر
لانے والے نے کوئی قابل
معاوضہ محنت نہ کی ہو نیز کمیشن کے بارے میں بھی یہ طے ہے کہ
ممبر بننے والے افراد جتنی زیادہ انویسٹ کریں گے
اتنی زیادہ کمیشن بنے گی،حالانکہ جب کمیشن
لینے کی اجازت ہوتی ہے ،تو اس میں بھی اتنی
ہی کمیشن جائز ہےجتنی اس کام کی عرف میں رائج ہو
۔ نیز جس آدمی کو ممبر بنانے کے لیے اس نے محنت
نہیں کی، بلکہ کسی دوسرے فرد نے کی ہے، تو اس کی کمیشن وہ دوسرا فرد ہی لے
سکتا ہے، پہلا فرد جس نے کوئی محنت نہیں کی اس کو کمیشن
کا مستحق نہیں بنایا جا سکتا ،جبکہ یہاں کمپنی پہلے فرد کو بھی کمیشن
کا کچھ حصہ دیتی ہے۔ یہ سب امور شریعت کے ضابطوں کے
خلاف ہیں ۔
امام اہلسنت احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ایک
سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:’’ اگر کارندہ نے اس بارہ میں جو
محنت و کوشش کی وہ اپنے آقا کی طرف سے تھی، بائع کے لئے
کوئی دوا دوش نہ کی، اگرچہ بعض زبانی باتیں اس کی
طرف سے بھی کی ہوں، مثلا آقا کو مشورہ دیا کہ یہ چیز
اچھی ہے، خرید لینی چاہیے یا اس میں
آپ کا نقصان نہیں اور مجھے اتنے روپے مل جائیں گے ، اس نے خرید
لی ،جب تو یہ شخص عمرو بائع سے کسی اجرت کا مستحق نہیں کہ
اجرت آنے جانے ، محنت کرنے کی ہوتی ہے، نہ بیٹھے بیٹھے
دو چار باتیں کہنے، صلاح بتانے، مشورہ دینے کی۔ردالمحتار
میں بزازیہ وولوالجیہ سے ہے: ’’الدلالۃ
والاشارۃ لیست بعمل یستحق بہ الاجر، وان قال لرجل بعینہ
ان دللتنی علی کذا فلک کذا، ان مشی لہ فدلہ فلہ اجر المثل
للمشی لاجلہ، لان ذٰلک عمل یستحق بعقد الاجارۃ الخ۔……اور اگر بائع کی طرف سے محنت وکوشش ودوادوش میں اپنا
زمانہ صرف کیا تو صرف اجر مثل کا مستحق ہوگا، یعنی ایسے
کام اتنی سعی پر جو مزدوری ہوتی ہے اس سے زائد نہ پائے گا
اگرچہ بائع سے قرارداد کتنے ہی زیادہ کا ہو‘‘ملتقطا (فتاوی رضویہ ،جلد 19، صفحہ
453، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
اگربالفرض
کمپنی کے ساتھ انویسٹ کا معاہدہ
شرکت یامضاربت وغیرہ کسی جائز شرعی معاہدے کے تحت
آتا ،تو پھر بھی کمپنی کا یہ اصول کہ ”چوبیس گھنٹے
میں ایک بار ایپ کھول
کر نفع لازمی طور پر رسیو کرنا ہے ،ورنہ وہ واپس چلا جائے گا“ بالکل
باطل اور سراسر ظلم ہوتا ،کیونکہ اگر واقعی کوئی بندہ کاروبار
میں نفع کا مستحق ہو چکا ہو، تو محض ایپ نہ کھولنے کی وجہ سے اس
کا حق ضائع نہیں ہو سکتا ۔
ایسی
کمپنیاں اکثر کچھ دن کے لیے آتی ہیں اور لوگوں کو کمیشن
و بونس وغیرہ کالالچ دے کر جال
میں پھنساتی ہیں اور شروع
شروع میں لوگوں کو یہ منافع
بھی دیتی ہیں،
لیکن کچھ ہی عرصےمیں جب لاکھوں روپیہ جمع ہو جاتا ہے، تو پھر بھاگ جاتی ہیں، دیگر
خرابیوں کے ساتھ ساتھ ایسی
کمپنیوں میں رقم ڈالنا اپنی رقم کو خطر اور نقصان پر پیش کرنا نیز خود اور
دوسروں کو ضرر ( نقصان )میں ڈالنے کے زمرے میں آتا ہے اور یہ
اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف
ہے ،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’لاضرر
ولاضرار فی الاسلام ‘‘ترجمہ: اسلام میں نہ
ضررہے، نہ دوسرے کو ضرر دینا۔ (المعجم الاوسط ، جلد5، صفحہ283، دار الحرمین،
قاھرہ)
تنبیہ: سوال میں
مذکورہ کمپنی کے بارے میں جو معلومات دی گئی ہیں،
یہ جواب ان معلومات کی
بنیاد پر لکھا گیا ہےاوران معلومات سے بظاہریہی محسوس ہوتا ہے کہ
یہ کمپنی کوئی قابل
اعتماد نہیں ہے، جبھی اس
کی نہ تو کوئی ویب سائٹ ہے اور نہ کوئی مصدقہ آفس ہےاور جو موبائل ایپ ہے، تو اس پر بھی VPN کے ساتھ ہی اکاؤنٹ بنتا ہے اور
رقم بھجوانے کا طریقہ بھی آفیشل نہیں ہے۔ پھر یہ کہ
آپ جس وقت مرضی چار ہزار
بھیج دیں، تو کمپنی پینل ایکٹو کر دے گی اور
ہر دو گھنٹے بعد نفع ملنا شروع ہو جائے گا ، یہ بھی ایک
غیر معقول بات ہے۔ اگر کمپنی کے پاس پہلے سے پینل رکھے
ہیں ،تو وہ خود ہی ایکٹو کر کے منافع کماتی رہے ، وہ چار
ہزار ملنے کا انتظار کیوں کر رہی ہے ؟ پھر ایکٹو کرنے کے بعد کون گاہک ہے ،جو دو دو گھنٹے بعد ان کو معاوضہ
دیتا ہے ؟ بالکل عجیب و غریب و غیر معقول
باتیں ہیں۔ اللہ
تعالی ہدایت عطا فرمائے اور مسلمانوں کو ایسی کمپنیوں
سے دور رہ کر اپنے دین و دنیا کو محفوظ رکھنے کی توفیق عطا
فرمائے ۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مضاربت ختم کرنی ہے تو کیا مضارب خریدا ہوا مال بیچ سکتا ہے؟
مضاربت سے ہونے والے منافع کو باہم تقسیم کرنا کیسا؟
جانور میں انوسٹمنٹ کا شرعی طریقہ؟
جانوروں میں مضاربت کا طریقہ؟
مضاربت میں نقصان کیا ہے اور اس کے اصول کیا ہیں؟
مضارب کا ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ کرنا کیسا ؟
مضاربت اور اس کےضروری احکام
پیسے اور دکان دے کر عقد مضاربت کی شرعی حیثیت