Muzarbat Ka Nafa Lena Kaisa Jabke Nafa Ka Sahi Hona Maloom Na Ho

مضاربت کا نفع لینا کیسا جبکہ معلوم نہ ہو کہ مضارب نے

شرعی اصولوں کا خیال رکھا یا نہیں؟

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطّاری مدنی

تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں نے شرعی رہنمائی لے کر ایک شخص کو بطور مضاربت پیسے دئیے، اس نے ان پیسوں کے ذریعے تجارت کی اور اَلحمدُلِلّٰہ نفع ہوا، اب ہم مضاربت کو ختم کر رہے ہیں میرے لئے مضاربت کا نفع لیناکیسا ہے کیونکہ مجھے معلوم نہیں ہے کہ مضارب نے تجارت شرعی اصولوں کے مطابق کی ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں آپ نے اگرمضاربت کی تمام شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے عقدِ مضاربت کیا ہے تو آپ کے لئےمضاربت سے حاصل ہونے والا نفع لینا حلال ہے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ مضارب نے یہ نفع حرام طریقہ سے کمایا ہےکیونکہ ظاہر یہی ہے کہ اس نے یہ نفع حلال طریقہ سےکمایا ہے۔

   درمختار میں ہے: ”دفع مالہ مضاربۃ لرجل جاھل جاز اخذ ربحہ ما لم یعلم انہ اکتسب الحرام“ یعنی کسی جاہل شخص کو مضاربت کے طور پر مال دیا تو مضاربت سے حاصل ہونے والا نفع لینا جائز ہے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے حرام طور پر کمایا ہے۔

   اس کے تحت ردالمحتار میں ہے: ”لان الظاھر انہ اکتسب من الحلال“ یعنی کیونکہ ظاہر ی طور پر اس نے حلال طریقے سے کمایا ہو گا۔(درمختار، 7/518)

   بہار شریعت میں ہے: ”کسی جاہل شخص کو بطور مضاربت روپے دے دئیے، معلوم نہیں کہ جائز طور پر تجارت کرتا ہے یا ناجائز طور پر تو نفع میں اس کو حصہ لینا جائز ہے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے حرام طور پر کسب کیا ہے۔ (بہار شریعت، 2/813)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم