فتوی نمبر:WAT-781
تاریخ اجراء:07شوال المکرم 1443ھ09/مئی 2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ایک
بد مذہب نے پوسٹ سینڈ کی ہے ۔ جس میں حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ جو
کہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹا ہے
۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے
تو اس کا جواب کیا ہو گا ؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات
بیداری کی حالت میں اللہ
تبارک وتعالی کا دیدار کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کا اللہ تبارک وتعالی کا دیدار کرنا مرفوع احادیث سے ثابت
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے خود
فرمایا: "رأيت ربي ۔ "ترجمہ:
میں نے اپنے رب کو دیکھا ہے ۔
یہی جمہور صحابہ
و ائمہ سلف و خلف کا موقف ہے ۔ جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ
والی روایت مرفوع نہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا
اپنا قول ہے جوکہ آپ رضی اللہ عنہا نے قرآن پاک کی آیات کے ظاہر
سے اخذ کیا ہے۔ لہذا مرفوع حدیث (یعنی نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے فرمان ) کے مقابل ، جمہورصحابہ
کرام علیہم الرضوان کے قول کے خلاف ،حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی
عنہا کے اس قول سے دلیل پکڑنادرست نہیں ۔
حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا کے فرمان کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کئی معراجیں
ہوئیں ۔ جسمانی معراج جس میں نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک وتعالی کا دیدار
کیا ،اس وقت حضرت عائشہ بہت چھوٹی تھیں اور نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر نہ ہوئیں تھیں ۔ لہذا
یہ ان روحانی معراجوں
کی بات کر رہی ہیں جو ان
کے زمانے میں ہوئیں۔
فتح
الباری میں ہے” فروى الخلال
في كتاب السنة عن المروزي قلت لأحمد إنهم يقولون إن عائشة قالت من زعم أن محمدا
رأى ربه فقد أعظم على الله الفرية فبأي شيء يدفع قولها قال بقول النبي صلى الله
عليه وسلم رأيت ربي قول النبي صلى الله عليه وسلم أكبر من قولها “ ترجمہ: خلال نے کتاب
السنہ میں مروزی سے نقل کیا (وہ کہتے ہیں کہ ) میں
نے امام احمد سے سوال کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جس نے گمان
کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے
اس نے اللہ پر بڑا بہتان باندھا۔ حضرت عائشہ کے اس قول کا جواب کس طرح ہو گا؟ تو حضرت امام احمد نے فرمایا
نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کے اس قول سے کہ میں نے اپنے رب کو دیکھا ہے
۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول حضرت عائشہ
کے قول سے ترجیح رکھتا ہے۔(فتح الباری، ج 8 ،ص 608، بیروت )
اسی میں ہے” قال النووي تبعا لغيره لم تنف
عائشة وقوع الرؤية بحديث مرفوع ولو كان معها لذكرته وإنما اعتمدت الاستنباط على ما
ذكرته من ظاهر الآية وقد خالفها غيرها من الصحابة والصحابي إذا قال قولا وخالفه
غيره منهم لم يكن ذلك القول حجة اتفاقا“ترجمہ: امام
نووی نے دیگر کی اتباع کرتے ہوئے فرمایا: حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا نے مرفوع حدیث سے رویت (دیدار)
واقع ہونے کی نفی نہیں
کی ۔ اگر ان کے پاس مرفوع حدیث ہوتی تو آپ اسے ذکر
کرتیں ۔ حضرت عائشہ نے جو
آیات ذکر کی ہیں ان کے ظاہرسے استدلال کیا ہے ۔
جبکہ دیگر صحابہ کرام نے آپ رضی اللہ عنہا کی مخالفت کی
۔اور صحابی جب کوئی بات کرے اور دیگر صحابہ اس کی
مخالفت کر دیں تو وہ قول بالاتفاق حجت نہیں رہتا۔(فتح الباری ، ج 8 ، ص607 ،
بیروت)
علامہ شہاب الدین خفاجی رحمہ اللہ
تعالی لکھتے ہیں:"الاصح الراجح انہ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم رای ربہ بعین راسہ حین
اسری بہ کما ذھب الیہ اکثر الصحابة“ترجمہ:مذہب اصح وراجح یہی ہے کہ نبی
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے شبِ معراج اپنے رب
کوجاگتی آنکھ سےدیکھا ،جیسا کہ جمہور صحابہ کرام کا
یہی مذہب ہے۔ (نسیم
الریاض ،فصل واما رؤیة لربہ،ج2،ص303، مرکز اھلسنت برکات رضا، گجرات
ھند )
فتاوی
رضویہ میں امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے
ہیں : ” ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی
عنہا شبِ معراج تک خدمت اقدس میں حاضر بھی نہ ہوئی تھیں
بہت صغیر السن بچی تھیں۔ وہ جو فرماتی
ہیں، ان روحانی معراجوں
کی نسبت فرماتی ہیں جو اُن کے زمانے میں
ہوئیں۔ معراجِ جسمانی انکی حاضری سے کئی سال
پیشتر ہوچکا تھا۔ “(
فتاوی رضویہ، ج 29، ص 632، رضا فاونڈیشن ، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کتبہ
المتخصص فی الفقہ الاسلامی
ابوصدیق محمد ابوبکر عطاری
عورت ایامِ مخصوصہ میں دعا کے طور پر وظائف اور قرآنی آیات پڑھ سکتی ہے؟
غیرقانونی گیس سے تیارکردہ کھانے کاحکم
انشورنس کی قیمت کم کروانے کے لیے ڈاکومنٹس میں جھوٹ لکھنا
مٹھائی وغیرہ میں حرام اجزاء شامل ہونے کی صرف افواہ ہوتوان کاحکم
خرگوش کھانے کاحکم
اعتکاف میں بیٹھی عورت کی کسی پریااس پرکسی کی نظرپڑنے کاحکم
ہندوکو”جے رام جی کی“بولنے کاحکم
مکروہ تنزیہی کی تعریف