Intiqal Karne Wale Ki Taraf Se Zakat o Fitra Dena ?

انتقال کرنے والے کی  طرف سے زکوۃ وفطرہ اداکرنا

فتوی نمبر:WAT-671

تاریخ اجراء:28شعبان المعظم 1443ھ/01اپریل2022

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کسی شخص کے انتقال کے بعداس کی طرف سےزکوۃ، فطرہ  ،ادا کرسکتےہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    کسی شخص کا انتقال ہوا، اور اس پر زکوۃ و فطرہ کی ادائیگی واجب تھی ، مگر اس نے ادا نہیں کیے تواس کی  طرف سے زکوۃ وفطرہ اداکرنے کے حوالے سے تفصیل  یہ ہے کہ :

   اگر میت نے مال چھوڑا ہو اور زکوۃ و فطرہ ادا کرنے کی وصیت بھی کی ہو تو تہائی مال میں اس کی وصیت پوری کرناضروری ہے اگرچہ ورثہ اجازت نہ دیں ۔اگرتہائی مال سے مکمل زکوۃ وفطرہ ادانہیں ہوتاتوجوعاقل بالغ ورثہ اجازت دیں ان کی اجازت سے صرف  انہی کے حصوں سے ادائیگی کی جاسکتی ہے اورجواجازت نہ دیں یااجازت دینے کے اہل ہی نہ ہوں یعنی غیرعاقل ہوں یانابالغ توان کے حصوں سے ادائیگی نہیں کی جاسکتی ۔

   اسی طرح اگرمیت نے وصیت ہی نہیں کی تھی تواب اس کی طرف سے اس کی زکوۃ اوراس کے فطرے کی ادائیگی کرنالازم نہیں ہے لیکن  جوعاقل بالغ ورثہ اجازت دیں ان کی اجازت سے صرف  انہی کے حصوں سے ادائیگی کی جاسکتی ہے اورجواجازت نہ دیں یااجازت دینے کے اہل ہی نہ ہوں یعنی غیرعاقل ہوں یانابالغ توان کے حصوں سے ادائیگی نہیں کی جاسکتی ۔

   جوہرہ نیرہ میں ہے:” وإذا مات من عليه زكاة أو فطرة أو كفارة أو نذر أو حج أو صيام أو صلوات ولم يوص بذلك لم تؤخذ من تركته عندنا إلا أن يتبرع ورثته بذلك وهم من أهل التبرع فإن امتنعوا لم يجبروا عليه وإن أوصى بذلك يجوز وينفذ من ثلث مالہ“ترجمہ:اورجب کوئی شخص اس حال میں فوت ہو کہ اس کے ذمے زکوٰۃ،فطرہ،کفارہ،منت،حج،روزوں،یا نمازوں کی ادائیگی باقی ہو اور اس نے مرنے سے پہلے ان کے متعلق وصیت بھی نہ کی ہو تو ہمارے نزدیک اس کے ترکہ میں سے ان کی ادائیگی نہیں کی جائے گی ،ہاں اگر ورثاء بطورِ احسان ادا ئیگی کریں اور وہ تبرع کے اہل بھی ہوں تو حرج نہیں اور اگر نہ کریں تو ان پر کوئی جبر نہیں،اور اگر فوت ہونے والے نے ان کے متعلق ادائیگی کی وصیت کی تھی تو درست ہے اوراس کے ترکہ میں سے تہائی مال میں اس کی وصیت نافذ ہوگی ۔ (جوہرہ نیرہ،کتاب الزکاۃ،باب صدقہ فطر،ج 1،ص 135، المطبعة الخيرية)

   بہارشریعت میں ہے " جس شخص پر زکاۃ واجب ہے اگر وہ مر گیا تو ساقط ہوگئی یعنی اس کے مال سے زکاۃ دینا ضرور نہیں، ہاں اگر وصیّت کر گیا تو تہائی مال تک وصیّت نافذ ہے اور اگر عاقل بالغ ورثہ اجازت دے دیں تو کُل مال سے زکاۃ ادا کی جائے۔ "(بہارشریعت،ج01،حصہ05،ص892،مکتبۃ المدینہ)

   بہارشریعت میں ہے " صدقہ فطر شخص پر واجب ہے مال پر نہیں، لہٰذا مر گیا تو اس کے مال سے ادا نہیں کیا جائے گا۔ ہاں اگر ورثہ بطورِ احسان اپنی طرف سے ادا کریں تو ہوسکتا ہے کچھ اُن پر جبر نہیں اور اگر وصیّت کر گیا ہے تو تہائی مال سے ضرور ادا کیا جائے گا اگرچہ ورثہ اجازت نہ دیں۔ " (بہارشریعت،ج01،حصہ05،ص935،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبہ

المتخصص  فی الفقہ الاسلامی

محمد عرفان مدنی عطاری