Zindagi Me Apne Liye Qabar Taiyar Karna

زندگی میں اپنے لیے قبرتیارکروانا

مجیب: ابوالحسن ذاکر حسین عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-977

تاریخ اجراء:       15محرم الحرام1444 ھ/15اگست2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   پہلےسےاپنےلیےقبرلےکررکھ سکتےہیں؟یہاں امریکہ میں قبرلینےمیں بہت مسئلہ ہے،جس دن انتقال ہو،اس دن قبرنہیں ملتی،لوگ میت کوفریزر(سردخانہ)میں رکھ دیتےہیں،اگراسی دن قبرخریدیں،توبیس ہزارتک ملتی ہے،تواس صورت میں کیاحکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   زندگی میں کفن پہلے سے تیار کرکے رکھ لینے میں کوئی حرج نہیں البتہ پہلے سے قبر بنانے سے علماء نے بچنے کا فرمایا  کہ انسان کو معلوم نہیں کہ اس کی موت کہاں واقع ہوگی ، بہر حال ناجائز یہ بھی نہیں بلکہ کثیر اکابرین سے ثابت ہے اور بالخصوص آپ نے سوال میں  جو دقتیں بیان کی، اس صورت میں جواز اور واضح ہوجاتا ہے لہٰذا  صورت مسئولہ میں  اپنی زندگی میں  قبر  لے کر رکھنا، بلا کراہت جائز ہے۔

   نوٹ: ایک شخص نے اپنے لئے قبر تیار کروائی، اس میں  دوسری میت دفن کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ جگہ وقف قبرستان نہیں بلکہ اس کی  مملوکہ زمین ہے تو مالک کی اجازت کے بغیر دوسرے کو دفن کرنا جائز نہیں اور اگر وقف قبرستان ہے تو اگر دفن کے لیے اور جگہ موجود ہے تو اس  میں کسی اور کو دفن نہ کیا جائے اور اگر دوسری جگہ نہیں تو دفن کرسکتے ہیں مگر قبر بنوانے میں اس کا جو خرچہ ہوا،وہ اسے دینا ہوگا،یااگرمالک مفت دینے پرراضی ہوجائے اوروہ اجازت دینے کااہل بھی ہوتوپھرمفت بھی لے سکتے ہیں ۔

   زندگی میں قبر تیار کرنے کے متعلق درمختار میں ہے: و یحفر قبرا لنفسہ ، وقیل یکرہ  ۔ اور اپنے لئے قبر کھودنے میں حرج نہیں اور کہا گیا کہ مکروہ ہے ۔(درمختار مع رد المحتار، ج 3، ص 183 ، مطبوعہ: کوئٹہ)

   رد المحتار میں ہے:فی بعض النسخ و بحفر قبر لنفسہ علی ان لفظۃحفر   مصدر مجرور بالباء مضاف الی قبر ای ولا باس بہ ۔ وفی التاترخانیۃ : لاباس بہ ، و یوجر علیہ ، ھکذا عمل عمر بن عبد العزیز و الربیع  بن خیثم  وغیرھما ۔اھ  "ترجمہ: بعض نسخوں  میں یہ عبارت یوں ہے اس تفصیل کے ساتھ کہ لفظ حفر مصدر،باء کی وجہ سے مجرور اور قبر کی طرف مضاف ہے ۔مراد یہ ہے کہ اس میں حرج نہیں ۔اور تاترخانیہ میں ہے اس میں حرج نہیں اور اس پر ماجور ہوگا ،اسی طرح عمر بن عبدالعزیز اور ربیع بن خیثم اور دیگر نے کیا ۔(رد المحتار، ج 3، ص 183 ، مطبوعہ: کوئٹہ)

   فتاوی رضویہ شریف میں ہے: کفن پہلے سے تیار رکھنے میں حرج نہیں اور قبر پہلے سے بنانا نہ چاہیے  کما فی الدر المختار  و غیرہ ۔ قال اللہ تعالی:( و ما تدری نفس بای ارض تموت )۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی رضویہ، ج 9، ص 265 ، مطبوعہ:رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   وقفی قبرستان میں دوسرے کی بنائی قبر میں اپنی میت کو دفن کرنے کے متعلق بہار شریعت میں ہے :وقفی قبرستان میں کسی نے قبر طیار کرائی  اس میں دوسرے لوگ اپنا مردہ دفن  کرنا چاہتے  ہیں  اور قبرستان میں  جگہ  ہے تو مکروہ ہے  اور اگر دفن کردیا تو قبر کھودوانے والا  مردہ کو نہیں نکلواسکتا، جو خرچ ہوا  ہے لےلے ۔  (بہار شریعت، ج 1، ص 847 ، مطبوعہ :مکتبۃ المدینہ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم