Zamin Par Char Diwari Khari Kar Ke Mayyat Ko Us Me Rakhna

میت کو دفنانے کے بجائے زمین پر کمرہ بنا کر اس میں رکھنا کیسا؟

مجیب:محمدعرفان مدنی

مصدق:مفتی ابوالحسن  محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Lar-1127

تاریخ اجراء: 06شعبان المعظم1443 ھ/ 10مارچ2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص فوت ہوا،تواسے زمین کے اوپرہی پکی جگہ پررکھ کراس کےاردگرداینٹوں سے چاروں طرف  چھوٹاساکمرہ نمابنادیاگیا۔قبرکھودکراس کے اندردفن نہیں کیاگیا،شرعی رہنمائی فرمائیں کہ کیاایساکرنا شرعادرست ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     صورت مسئولہ میں میت کوزمین میں دفن کرنے کے بجائے زمین کے اوپرہی رکھ کراس کے گردکمرہ نمابنایاگیا،توایساکرناشرعادرست نہیں تھا،لازم ہے کہ میت کووہاں سے نکال کرشرعی طریقہ کے مطابق زمین  کھودکردفن کریں ۔کیونکہ مسلمان میت کوحتی الامکان دفن کرنافرض کفایہ ہے(یعنی کسی نے بھی تدفین کردی، توسب بری الذمہ ہوجائیں گے، ورنہ جن جن کواطلاع اورقدرت تھی ،وہ سب کے سب گنہگارہوں گے )اوردفن کرنے کامطلب ہے کہ :زمین میں قبرکھودکراس میں میت کورکھ کراسے چھپایاجائے ۔اس طرح  دفن کرنے کے بجائے زمین کے اوپررکھ کراس کے چاروں طرف دیواریں کردینایہ دفن کرنانہیں ہے ،لہذااس طرح کرنے سے فرض کفایہ پرعمل نہیں ہوا۔

     حلبۃ المجلی  میں ہے:’’ الدفن فرض کفایۃ اذاامکن بالاجماع حتی لومات فی سفینۃ ولم یمکنھم الخروج الی ارض یباح دفنہ فیھاغسل وکفن وصلی علیہ والقی فی البحر‘‘ترجمہ:دفن فرض کفایہ ہے ،جبکہ ممکن ہو،بالاجماع یہاں تک کہ اگرکوئی کشتی  میں فوت ہوااورکشتی والوں  کے لیے کسی ایسی زمین کی طرف نکلناممکن نہ ہوکہ جس میں اس کودفن کرنامباح ہو،تواسے غسل دے کرکفن پہنایاجائے اوراس پر نماز پڑھی جائے اورسمندرمیں ڈال دیاجائے گا۔ (حلبۃ المجلی،فصل فی صلاۃ الجنازۃ،جلد02،صفحہ620،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

     رد المحتار میں ہے:’’ (قوله وحفر قبره إلخ) شروع في مسائل الدفن. وهو فرض كفاية إن أمكن إجماعا واحترز بالإمكان عما إذا لم يمكن كما لو مات في سفينة كما يأتي. ومفاده أنه لا يجزئ دفنه على وجه الأرض ببناء عليه كما ذكره الشافعية، ولم أره لائمتنا صريحا‘‘ترجمہ(مصنف کا قول:میت کے لیے قبر کھودی جائے الخ)یہاں سے دفن کے مسائل شروع ہورہے ہیں اور میت کی تدفین اگر ممکن ہو،تو بالاجماع فرض کفایہ ہے،بالامکان کہہ کراس صورت سے احترازکیاہے کہ جب ممکن نہ ہو،جیساکہ اگرکوئی کشتی میں فوت ہوجائے ،جس کی وضاحت آگے آئے گی ۔اور اس کا مفاد یہ ہے کہ میت کو یوں دفن کرنا کہ اس کو زمین پر رکھ کر اوپر عمارت بنا دی جائے جیسا کہ شافعیہ نے ذکر کیا، یہ کفایت نہیں کرے گا ۔ (رد المحتار علی الدر المختار،مطلب فی دفن المیت،جلد02،صفحہ 233،دار الفکر،بیروت)

     فتاوی ولوالجیہ  میں ہے:’’ فلایضروترادخلہ اوشفع لان الفرض ھوالوضع  فی القبرفکان العبرۃ لمایقع فیہ الکفایۃ‘‘ترجمہ: پس  قبرمیں اتارنے والے طاق ہوں یاجفت اس میں کوئی مسئلہ نہیں،کیونکہ فرض جوہے، وہ ہے قبرمیں مردے کورکھنا،توجتنی تعداد سے یہ فرض اداہوجائے، اتنی کااعتبارہوگا۔(الفتاوی الولوالجیۃ،کتاب الطھارۃ ،جلد01،صفحہ167،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

     تاج العروس میں ہے:’’ (دفنه يدفنه) دفنا: (ستره وواره) في التراب‘‘ترجمہ:اس نے اسے دفن کیا،اس کامطلب ہے :اس نے اسے مٹی میں چھپایااورڈھانپا۔(تاج العروس،جلد35،صفحہ16،دارالھدایۃ)

     ردالمحتارمیں ہے:’’ فرض الكفاية فإنه يجب على جملة المكلفين كفاية، بمعنى أنه لو قام به بعضهم كفى عن الباقين وإلا أثموا كلهم‘‘ترجمہ:فرض کفایہ،جملہ مکلفین پرکفایتاواجب ہوتاہے بایں معنی کہ اگربعض مکلفین اسے اداکرلیں، تو باقیوں کی طرف سے کفایت کرجاتاہے، ورنہ سارے گنہگارہوتے ہیں ۔ (ردالمحتارمع الدرالمختار،کتاب الصلوۃ،جلد01،صفحہ352،دارالفکر،بیروت)

     بہار شریعت میں ہے:’’میّت کو دفن کرنا فرض کفایہ ہے اور یہ جائز نہیں کہ میّت کو زمین پر رکھ دیں اور چاروں طرف سے دیواریں قائم کر کے بند کر دیں۔‘‘(بھار شریعت،جلد01،حصہ4،صفحہ 842،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم