Wafat Ke Baad Walidain Par Aulad Ke Amal Ka Pesh Hona

وفات کے بعد والدین پر اولاد کے اعمال کا پیش ہونا

مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری

فتوی نمبر: WAT-1860

تاریخ اجراء:13محرم الحرام1445ھ/01اگست2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر والدین فوت ہو جاتے ہیں، تو کیا ان کی اولاد کے اعمال ان پہ پیش کئے جاتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حدیث مبارک میں ہے کہ آدمی کے اعمال اس کے ماں باپ پر بھی پیش کئے جاتے ہیں ۔ چنانچہ  الجامع الصغیر میں ہے:”تعرض الأعمال یوم الأثنین والخمیس علی ﷲ وتعرض علی الأنبیاء وعلی الآباء والأمّهات یوم الجمعۃ فیفرحون بحسناتهم وتزداد وجوههم بیاضاً وإشراقاً فاتّقوا ﷲ ولاتؤذوا موتاکم“ترجمہ: ہر پیر اور جمعرات کو اللہ تعالیٰ  کی بارگاہ میں اعمال پیش کیے جاتے ہیں اور انبیاءِ کرام علیہم السلام اور آباء و امہات پر جمعہ کے دن اعمال پیش کیے جاتے ہیں، چنانچہ انبیائے کرام امت کے نیک اعمال اور والدین اپنی اولاد کے نیک اعمال سے خوش ہوتے ہیں اور ان کے چہرے مزید روشن اور سفید ہوجاتے ہیں، لہٰذا اللہ  عزوجل سے ڈرو اور اپنے فوت شدگان کوتکلیف مت دو۔(الجامع الصغیر،ج1، ص295،رقم الحدیث3316)

   فتاوی رضویہ میں  والدین کی وفات کے بعداولادپرآنے والے والدین کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرمایا:” سب میں سخت تر وعام تر ومدام تریہ حق ہے کہ کبھی کوئی گناہ کرکے انہیں قبرمیں ایذا نہ پہنچانا، اس کے سب اعمال کی خبرماں باپ کوپہنچتی ہے، نیکیاں دیکھتے ہیں توخوش ہوتے ہیں اور ان کاچہرہ فرحت سے چمکتا اوردمکتاہے، اور گناہ دیکھتے ہیں تو رنجیدہ ہوتے ہیں اور ان کے قلب پرصدمہ ہوتاہے، ماں باپ کایہ حق نہیں کہ انہیں قبرمیں بھی رنج پہنچائے۔" (فتاوی رضویہ،ج 24،ص 391،392،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم