مجیب: ابوالحسن ذاکر حسین عطاری مدنی
مصدق
: مفتی فضیل
رضا عطاری
فتوی نمبر:5271 Har-
تاریخ اجراء: 08 ربیع الاول 1444 ھ/05 اکتوبر 2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین
اس مسئلےکے بارے میں کہ جو شخص نزع کی حالت میں ہو، اسے تلقین
کی جاتی ہے ، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے
؟ نیز تلقین صرف ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کی کی جائے یا
پورے کلمہ کی ؟ اس کی بھی وضاحت فرمادیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جو شخص نزع کی حالت میں ہو اسے تلقین
کرنا مستحب ہے اور تلقین مکمل کلمہ
طیبہ کی کی جائے ، کہ
علماء نے اس تلقین کی حکمت یہ بیان فرمائی کہ جو
شخص نزع میں ہوتا ہے ، اس کے پاس دو شیطان ماں باپ کی شکل میں
آتے ہیں ، جس میں سے ایک اسے
(معاذ اللہ )یہودی ہونے
کی اور دوسرا عیسائی
ہونے کی دعوت دیتا ہے،تو کلمہ طیبہ کی تلقین شیطان
کے اس وسوسہ کو دور کرنے میں مددگار
ثابت ہوگی اور ظاہر ہے کہ
محض’’لا الہ الا اللہ ‘‘سے یہ وسوسہ دور
نہیں ہوگا کہ اتنا یہودی اور عیسائی بھی
مانتے ہیں، بلکہ اس شیطانی وسوسہ کا علاج مکمل کلمہ طیبہ
ہے ،لہٰذا بوقت نزع مکمل کلمہ طیبہ کی تلقین کی
جائے،تاکہ شیطان کے اس وسوسہ کا علاج ہوسکے ۔
نوٹ:اس مسئلے کی مکمل
تحقیق فتاوی رضویہ، جلد 9، صفحہ 83 تا 90 ، (مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن
لاہور) میں مذکور ہے ، وہاں سے مطالعہ فرمائیں۔یہاں صرف
چند جزئیات ذکر کیے جاتے ہیں۔
چنانچہ متن تنویر الابصار و شرح درمختار میں ہے
:’’(ویلقن ) ندبا،
و قیل وجوبا (بذکر الشھادتین) لان الاولی لا تقبل بدون
الثانیۃ ‘‘اورشہادتین کا ذکر کرکے
اسےتلقین کی جائے،یہ مستحب ہے اور کہا گیا کہ واجب ہے۔شہادتین
کا اس لیے کہ ایک ، دوسرے کے بغیر مقبول نہیں۔(متن
تنویر الابصار و شرح درمختار مع رد المحتار، ج 3، ص 91 ، 92 ، مطبوعہ کوئٹہ
)
رد المحتار میں ہے
: ’’قولہ: (و یلقن)
لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم : لقنوا مو تاکم لا الہ اللہ،
فانہ لیس مسلم یقولھا عند الموت الا انجتہ من النار۔ و
لقولہ علیہ الصلاۃ و السلام :
من کان آخر کلامہ لا الہ الا
اللہ دخل
الجنۃ ۔کذا فی البرھان
ای دخلھا مع الفائزین ، و الا فکل مسلم و لو فاسقا یدخلھا ولو بعد طول عذاب ۔ امداد ۔
قولہ : (وقیل وجوبا ) فی القنیۃ
، و کذا فی النھایۃ عن
شرح الطحاوی : الواجب علی اخوانہ
و اصدقائہ ان یلقنوہ اھ ۔ قال فی النھر : لکنہ تجوز لما
فی الدرایۃ من انہ مستحب بالاجماع ۔ اھ فتنبہ ۔
قولہ (بذکر الشھادتین) قال فی
الامداد: و انما اقتصرت علی ذکر الشھادۃ تبعا للحدیث الصحیح
و ان قال فی المستصفی
وغیرہ : و لقن الشھادتین
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔الخ “ اور اسے تلقین کی جائے، نبی کریم صلی
اللہ علیہ و سلم
کے اس فرمان کی وجہ سے کہ:”اپنے
مُردوں کو’’ لا الہ الا اللہ‘‘ کی تلقین کرو ،کیونکہ کوئی
مسلمان موت کے وقت اس کلمہ کو نہیں کہتا ،مگر یہ کہ عذاب نار سے نجات
پاجاتا ہے۔ “ اور اس فرمان کی وجہ سے کہ :”جس کا
آخری کلام’’لا الہ الا اللہ ‘‘ہو، وہ داخلِ جنت ہوگا۔
“ اسی طرح برہان میں
ہے یعنی کامیاب ہونے والوں کے ساتھ جنت میں داخل ہوگا ،
ورنہ مسلمان اگرچہ فاسق ہو جنت میں
داخل ہوگا، اگرچہ طویل عذاب کے بعد۔ امداد۔شارح علیہ
الرحمۃکا قول(اور کہا گیا کہ تلقین واجب ہے)قنیہ
میں اور اسی طرح نہایہ میں شرح طحاوی سے ہے کہ :میت
کے بھائیوں اور دوستوں پر واجب ہےکہ اسے تلقین کریں ۔ اھ
نہر میں فرمایا: لیکن یہ بطور مجاز ہے ،کیونکہ درایہ
میں ہے کہ تلقین بالاجماع مستحب ہے۔ اھ تو تم متنبہ رہو۔ماتن
کا قول(شہادتین کے ذکر کے ساتھ) امداد الفتاح میں ہے :اور میں
نے حدیث صحیح کی اتباع
میں شہادت کے ذکر پر اقتصار کیا ہے اور مستصفی وغیرہ میں
ہے:اور شہادتین یعنی’’لا الہ
الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کی تلقین کی
جائے ۔(رد المحتار مع الدرالمختار، ج 3، ص 91 ، 92 ، مطبوعہ کوئٹہ
)
بحر الرائق میں ہے:’’(ولقن
الشھادۃ )بان یقال عندہ’’ لا الہ
الا اللہ محمد رسول اللہ “ و
لا یؤمر بھا للحدیث الصحیح
:’’من کان آخر کلامہ لا الہ
الا اللہ دخل الجنۃ ‘‘وھو
تحریض علی التلقین بھا
عند الموت فیفید الاستحباب ‘‘اور اسے شہادت کی
تلقین کی جائے ، اس طرح کہ اس
کے پاس” لا الہ الا اللہ محمد
رسول اللہ “
پڑھا جائے، اس سے پڑھنے کا مطالبہ نہ کیا جائے ۔(یہ تلقین
)اس صحیح حدیث کی وجہ
سے ہے کہ: جس کا آخر کلام’’لا الہ
الا اللہ ‘‘ہو ، وہ داخل جنت ہوگا۔ اوراس میں تلقین
کی ترغیب ہے ،تو یہ حدیث استحباب کا فائدہ دے گی ۔ (بحر
الرائق، جلد 2، صفحہ 299 ، مطبوعہ کوئٹہ)
سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ
الرحمۃ فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں:’’ اللہ عزوجل خیر
کے ساتھ شہادتین پر موت نصیب کرے ۔ وقت مرگ بھی پورا کلمہ طیبہ پڑھنا چاہئے ، جو اسے منع کرتا ہے مسلمان اس کے اغوا و اضلال پر کان
نہ رکھیں کہ وہ شیطان کی اعانت چاہتا ہے۔ امام
ابن الحاج مکی قدس سرہ الملکی مدخل میں
فرماتے ہیں کہ دم نزع دو شیطان
آدمی کے دونوں پہلو پر آکر بیٹھتے
ہیں، ایک اس کے باپ کی
شکل بن کر دوسرا ماں کی۔ ایک کہتا ہے کہ وہ شخص یہودی
ہو کر مرا تُو یہودی ہوجا کہ یہود وہاں بڑے چین سے ہیں
۔ دوسرا کہتا ہے وہ شخص نصرانی گیا، تُو نصرانی ہوجا کہ
نصاری وہاں بڑے آرام سے ہیں ۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ شیطان کے اغوا کے بچانے کے لیے محتضر کو تلقین کلمہ کا حکم
ہوا۔ ظاہر ہے کہ صرف’’ لا الہ الا اللہ ‘‘اس
کے اغوا کا جواب نہیں ۔’’لا الہ الا اللہ‘‘ تو یہود و
نصاری بھی مانتے ہیں ، ہاں وہ کہ جس سے اس معلون کے فتنے مٹتے ہیں’’
محمد رسول اللہ ‘‘ کا ذکر کریم
ہے ، صلی اللہ تعالی علیہ
وسلم۔ یہی اس کے ذریات کے بھی دل
میں چبھتا، جگر میں زخم ڈالتا ہے، مسلمان ہر گز
ہر گز اسے نہ چھوڑیں اور جو
منع کرے اس سے اتنا کہہ دیں کہ” گر
بتو حرام است حرام بادا “
اگر یہ تجھ پر حرام ہے، تو حرام رہے (ت)۔‘‘ (فتاوی رضویہ،
ج 9، ص 83 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،
لاھور )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
تیجے کے چنوں کا مالدار کو کھانا کیسا؟
میت کے غیر ضروری بال کاٹنے کا حکم؟
غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا حکم؟
کیا قبر میں شجرہ رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟
میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر کتنی دیرتک ٹھہرنا چاہیے؟
قبر بیٹھنے کی صورت میں قبر کے اوپر کی تعمیر نو کرسکتے ہیں؟
نماز جنازہ کی تکرار کرناکیسا ہے؟
غسل میت سے پہلے میت کے پاس تلاوت کرنا کیسا؟