Talqeen Karne Ka Tarika Aur Talqeen Madri Zuban Mein Karna

 

تلقین کرنے کا طریقہ اور تلقین مادری زبان میں کرنا

مجیب:مولانا محمد ماجد رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1734

تاریخ اجراء:29ذوالقعدۃالحرام1445ھ/07جون2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میت کو دفنانے کے بعد قبر کے سرہانے تلقین کی جاتی ہے،اس کا طریقہ کیا ہے اور کیا یہ تلقین اپنی مادری زبان میں کر سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   تلقین کےطریقے کے متعلق صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ”دفن کے بعد مردہ کو تلقین کرنا، اہل سنت کے نزدیک مشروع ہے۔۔۔ حدیث میں ہے: حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ و سلم فرماتے ہیں : جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی مرے اور اس کی مٹی دے چکو تو تم میں ایک شخص قبر کے سرہانے کھڑا ہو کر کہے: یا فلاں بن فلانہ (یعنی اس کا اور اس کی والدہ کا نام لے)وہ سنے گا اور جواب نہ دے گا پھر کہے: یا فلاں بن فلانہ! وہ سیدھا ہو کر بیٹھ جائے گا پھر کہے یا فلاں بن فلانہ وہ کہے گا، ہمیں ارشاد کر اللہ عزوجل تجھ پر رحم فرمائے گا۔ مگر تمہیں اس کے کہنے کی خبر نہیں ہوتی۔ پھر کہے: ”اُذْکُرْ مَا خَرَجْتَ مِنَ الدُّنْیَا شَھَادَۃَ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللہ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُـہٗ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَنَّکَ رَضَیْتَ بِاللہ رَبًّا وَّبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَّ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَبِیًّا وَّ بِالْقُرْاٰنِ اِمَامًا“(ترجمہ :یاد کر وہ بات کہ جس کے ساتھ تو دنیا سے آیا یعنی اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے خاص بندے اور رسول ہیں اور بیشک تو اللہ کے رب ہونے اور اسلام کے دین ہونے اور محمد کے نبی ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا۔)

   نکیرین ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہیں گے، چلو ہم اس کے پاس کیا بیٹھیں جسے لوگ حجت سکھا چکے، اس پر کسی نے حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) سے عرض کی ، اگر اس کی ماں کا نام معلوم نہ ہو؟ فرمایا:حوا کی طرف نسبت کرے۔رواہ الطبرانی فی الکبیر و الضیاء فی الاحکام و غیرھا۔

   بعض اجلہ ائمہ تابعین فرماتے ہیں: جب قبرپر مٹی برابرکرچکیں اور لوگ واپس جائیں تو مستحب سمجھا جاتا کہ میت سے اس کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر یہ کہا جائے : ”یا فلان بن فلان قُلْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللہ“تین بار پھر کہا جائے:” قُلْ رَّبِّیَ اللہ وَدِیْنِیَ الْاِسْلَامُ وَنَبِیِّ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ

   اعلیٰ حضرت قبلہ نے اس پر اتنا اور اضافہ کیا: ”وَاعْلَمْ اَنَّ ھٰذَیْنِ الَّذیْنِ اَتَیَاکَ اَوْیَأْ تِیَانِکَ اِنَّمَا ھُمَا عَبْدَانِ للہ لَا یَضُرَّانِ وَلَا یَنْفَعَانِ اِلَّا بِاِذْنِ اللہ فَـلَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ وَاَشْھَدْ اَنَّ رَبَّکَ اللہ وَدِیْنَکَ الْاِسْلَامُ وَنَبِیَّکَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثَـبَّتَنَا اللہ وَاِیَّاکَ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰـوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ اِنَّـہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(بہارشریعت، جلد 1، صفحہ 850 ، 851 ، مکتبۃ المدینہ)

   واضح رہے کہ تلقین کرنے میں وہی طریقہ اختیار کیا جائے جو بیان کیا گیا، اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرنے سے بچا جائے، نیز تلقین کے الفاظ جو احادیث کے حوالے سے نقل کئے گئے وہ عربی میں ہیں،لہٰذا تلقین بھی عربی میں کی جائے۔جیساکہ کتاب ”تجہیز و تکفین کا طریقہ“ میں ہے:”تلقین صرف عربی میں کی جائے۔“(تجہیز و تکفین کا طریقہ، صفحہ 142، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم