Soyam Ke Chane Khana Kaisa Hai ?

سوئم کے چنے کھانا کیسا ہے ؟

مجیب: مولانا عابد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1235

تاریخ اجراء: 23جمادی الاول1445 ھ/08دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   سوئم کے چنے کھانا کیسا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   تیجے میں  منگوائے جانے والے چنے عرفا ً خاص غریبوں کے لیے ہی نہیں ہوتے بلکہ جو بھی موجود ہو ، سب کو دئیے جاتے ہیں ،اس لیے انہیں امیر اور غریب سب کھا سکتے ہیں مگر مالدار لوگوں کو ان کے کھانے سے بچنا بہتر ہے  ۔

   امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :” سوم کے چنے بتاشے کہ بغرض مہمانی نہیں  منگائے جاتے بلکہ ثواب پہنچانے کے قصد سے ہوتے ہیں۔۔۔ یہ اگر مالک نے صرف محتاجوں کے دینے کے لیے منگائے اور یہی اس کی نیت ہے تو غنی کو ان کا بھی لینا، نا جائز ، اور اگر اس نے حاضرین پر تقسیم کے لیے منگائے تو اگر غنی بھی لے لے گاتو گنہگار نہ ہوگا، اور یہاں بحکم عرف ورواج عام حکم یہی ہے کہ وہ خاص مساکین کے لیے نہیں ہوتے تو غنی کو بھی لینا ناجائز نہیں اگر چہ احتراز  زیادہ پسندیدہ ۔ اور اسی پر ہمیشہ سے اس فقیر کا عمل ہے۔“(فتاوی رضویہ ، جلد9، صفحہ 672، رضا فاؤنڈیشن ، لاہور)

   ایک مقام پر آپ رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا ”میت کے سیم میں چنوں پر کلمہ شریف پڑھنا اور پھر ان کو اور بتاشوں کو تقسیم کرنا چاہئے یانہیں؟میت کے سیم کے چنے وبتاشے سوائے مساکین کے دوسرے کو لینا اور کھانا چاہئے یانہیں؟

   تو آپ  رحمۃ اللہ علیہ نے جواب ارشاد فرمایا:”جائز اورمستحسن ہے اور باعث اجروثواب ہے اس کے لئے بھی اور اس میت مسلمان کے لئے بھی، اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : من استطاع منکم ان ینفع اخاہ فلینفعہ(ترجمہ : تم میں جو  اپنے بھائی کو نفع پہنچاسکے تو اسے چاہیے کہ نفع پہنچائے ۔)(چنے وغیرہ مساکین کے علاوہ کو لینا)جائز ہے مگر بہتر یہ ہے کہ صرف مساکین کو دئیے جائیں، اغنیا  کا نہ لینا بہتر ہے۔“(فتاوی رضویہ ، جلد23، صفحہ 129، رضا فاؤنڈیشن ، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم